سپنوں کی کھڑکی سے جھانکے گورے گورے تن کی دھوپ
سپنوں کی کھڑکی سے جھانکے گورے گورے تن کی دھوپ
رات گئے رنگ اور دکھائے تیرے سندر پن کی دھوپ
جوبن تھوڑی دیر کا مہماں جوبن پر اترانا کیا
پل دو پل میں ڈھل جائے گی یہ تیرے جوبن کی دھوپ
آس کا ہر اک پنچھی اپنے گھر کی جانب لوٹ گیا
دیواروں پر چڑھنے لگی ہے پھیلے ہوئے آنگن کی دھوپ
تجھ بن جیسے گہن لگا ہو امیدوں کے سورج کو
دیکھ تو کتنی کجلائی ہے تجھ بن میرے من کی دھوپ
جیسے کسی الھڑ گوری کا ہو رنگین خیال مجیبؔ
ہے ایسی شرمائی لجائی البیلے ساون کی دھوپ