اب کے برس گلشن میں نہ جانے کیسی ہوا لہرائی ہے
اب کے برس گلشن میں نہ جانے کیسی ہوا لہرائی ہے
موسم موسم گرد آلودہ ساری فضا دھندلائی ہے
مستقبل کے خواب سجائے اپنی اپنی آنکھوں میں
سارے پڑوسی جاگ رہے ہیں اور ہمیں نیند آئی ہے
کون کسے اب سر کرتا ہے وقت ہی یہ بتلائے گا
ایک طرف ہے عزم مصمم ایک طرف دارائی ہے
سطح زمیں کا ہر اک خطہ ڈوب رہا ہے پانی میں
ایسے میں کیا اندازہ ہو کتنی کہاں گہرائی ہے
ہم کو مشینوں کی شورش سے ہوتی ہے گھبراہٹ سی
خاموشی کی چاہت ہم کو گاؤں میں پھر لے آئی ہے
اس بارے میں کچھ بتلا کر آپ وضاحت رہنے دیں
کس نے دل کو زخم دئے ہیں کس کی کرم فرمائی ہے
کوئی برا کیا مانے شہزرؔ سودائی کی باتوں کا
دانشور پھر دانشور ہے سودائی سودائی ہے