جب مرے شہر کے دن رات سہانے ہوں گے

جب مرے شہر کے دن رات سہانے ہوں گے
وقت کب آئے گا کب ایسے زمانے ہوں گے


آج کے دور میں جینے کی اگر ضد ہے تمہیں
زندگی کے نئے آداب بنانے ہوں گے


صرف اس شرط پہ بخشی گئیں نیندیں مجھ کو
جاگتی آنکھوں میں کچھ خواب سجانے ہوں گے


بھائی نے بھائی کے زخموں پہ دوا رکھی تھی
آج کی بات نہ کر پچھلے زمانے ہوں گے


زندہ رکھنا ہے اگر ذوق شجرکاری تمہیں
پیڑ پتھریلی زمیں پر بھی لگانے ہوں گے


جانے کس رخ سے تمہیں اپنا سمجھ لے دنیا
اپنے چہرے پہ کئی چہرے چڑھانے ہوں گے


ہم نے بدلی نہ روش اپنی تو سن لو شہزرؔ
اپنے ہی تیروں کے ہم آپ نشانے ہوں گے