محب عارفی کی غزل

    خیال ذہن شکن سے زبان بھر آ جائے

    خیال ذہن شکن سے زبان بھر آ جائے یہ ہو تو ہاتھ مرے کوئی شعر تر آ جائے ہمارے مٹنے سے دنیا ہوئی ہے ایسی نہاں کہ جیسے بیج سے باہر کوئی شجر آ جائے بنائی میں نے جو بے‌‌ صورتی کے پتھر سے میں کیا کروں اسی مورت پہ دل اگر آ جائے چمن تمام تو آہٹ پہ اس کی جھوم اٹھا یہاں یہ خبط وہ سیل ہوا نظر ...

    مزید پڑھیے

    کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں

    کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں رات نے بھید سارے بتائے ہمیں راز ہستی تو کیا کھل سکے گا کبھی مل گئے تھے مگر کچھ کنائے ہمیں گرد ہیں کاروان گزشتہ کی ہم کیا اب آنکھوں پہ کوئی بٹھائے ہمیں ساری دل داریاں دیکھ کر سوئے ہیں اب نہ زنہار کوئی جگائے ہمیں ناز جن سے ہمارے نہ اٹھ پائے تھے آج ...

    مزید پڑھیے

    دلبری اس رخ دلربا کی خال و خد سے عبارت نہیں ہے

    دلبری اس رخ دلربا کی خال و خد سے عبارت نہیں ہے محو نظارۂ خال و خد کو یہ سمجھنے کی مہلت نہیں ہے دل سے ہوتی تو ہے راہ دل کو فاصلہ ہے مگر راہ خود بھی ایک ہو جائیں ہم آپ مل کر عشق کی ایسی قسمت نہیں ہے جس کو اپنی نظر جانتا ہوں اس کے جلووں کا ہے اک کرشمہ وہ نظر ہی نہیں جس کی ہستی اس کی ...

    مزید پڑھیے

    بے تہی یہی ہوگی یہ جہاں کہیں ہوں گے

    بے تہی یہی ہوگی یہ جہاں کہیں ہوں گے سطح کاٹنے والے سطح آفریں ہوں گے آفتاب ہٹ جائے جھلملانے والے ہی آسمان ویراں میں رونق آفریں ہوں گے زندگی منانے کو وہم بھی غنیمت ہیں ہم بھی وہم ہی ہوں گے وہم اگر نہیں ہوں گے یہ جتا دیا آخر مجھ کو میرے اجزا نے اپنے آپ میں رہیے ورنہ بس ہمیں ہوں ...

    مزید پڑھیے

    خرد یقیں کے سکوں زار کی تلاش میں ہے

    خرد یقیں کے سکوں زار کی تلاش میں ہے یہ دھوپ سایۂ دیوار کی تلاش میں ہے خطا چمن کی کہ ہے مبتلائے لالہ و گل بہار صرف خس و خار کی تلاش میں ہے چھلک رہا ہے قبائے حیا سے اس کا شباب شراب جرأت میخوار کی تلاش میں ہے وہ نقطہ ہوں جو بھرم ہے نقوش‌ ہستی کا زمانہ کیا مرے اسرار کی تلاش میں ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو طلب تو نئی دنیا کی ہے

    مجھ کو طلب تو نئی دنیا کی ہے راہبری نقش کف پا کی ہے بادیہ پیمائی وحشت سے تنگ بے افقی وسعت صحرا کی ہے ہے وہی موجود جو ہے دیدنی رائے یہی دیدۂ بینا کی ہے گھور رہی ہے جسے پیاسی نظر شکل وہ مے کی نہیں مینا کی ہے دل کشیٔ پیچ و خم پیرہن دین خم و پیچ سراپا کی ہے زلف پریشاں کے تلون میں ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر جس پہ تکیہ رہا کچھ نہ تھا دل نہیں مانتا

    عمر بھر جس پہ تکیہ رہا کچھ نہ تھا دل نہیں مانتا کیا کروں تجزیوں کا اٹل فیصلہ دل نہیں مانتا کوند کر ایک لمحہ جو پھر جا ملا وقت کے ابر میں چھوڑ دے گی اسے وقت کی مامتا دل نہیں مانتا گھپ اندھیرے سے لیتی ہے کیوں کر جنم روشنی کی لگن یہ کرشمہ نہیں ہے کسی شمع کا دل نہیں مانتا خشک ہی کیوں ...

    مزید پڑھیے

    اس کو پا جاؤں کبھی ایسا مقدر ہے کہاں

    اس کو پا جاؤں کبھی ایسا مقدر ہے کہاں اور اٹھا لوں اس سے دل یہ زور دل پر ہے کہاں گھٹ کے رہ جائے نہ سر ہی میں کہیں ذوق سجود میں تو سر ہر در پہ رکھ دوں پر کوئی در ہے کہاں نغمہ ریزی ساز کی بازی گری مطرب کی ہے نغمہ کوئی بے نوا تاروں کے اندر ہے کہاں اس کے ہونٹوں سے جھلکتی ہے مری لب ...

    مزید پڑھیے

    اب یہاں کوئی نہیں پہلے یہاں تھا کوئی

    اب یہاں کوئی نہیں پہلے یہاں تھا کوئی جس کے دم سے یہ مکاں اور مکاں تھا کوئی دائرہ دائرہ تھا جس سے وہ مرکز نہ رہا جب وہ تھا نقطۂ بے قبلہ کہاں تھا کوئی ننگ میداں ہے جو اب زینت میداں تھا کبھی اب جہاں گم ہوں وہاں پہلے رواں تھا کوئی میری شاخیں مرے پتے مجھے سب چھوڑ گئے جیسے میں باعث ...

    مزید پڑھیے

    شعلۂ شوق کی آغوش میں کیوں کر آؤں

    شعلۂ شوق کی آغوش میں کیوں کر آؤں اک تمنا ہوں کہ مٹ جاؤں اگر بر آؤں ایک دعوت ہوں اگر ان کے لبوں پر کھیلوں ایک حسرت ہوں اگر خود کو میسر آؤں ہر طرف سے مجھے کیا گھور رہی ہیں آنکھیں خواب ہوں دیدۂ بے دار میں کیوں کر آؤں ایک عالم ہوں جسے بس کوئی محسوس کرے کوئی معنی ہوں کہ الفاظ کے اندر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2