محب عارفی کی غزل

    کچھ نہ ہونے کی حقیقت نہیں جانی یعنی

    کچھ نہ ہونے کی حقیقت نہیں جانی یعنی ہم ہر اثبات پہ کرتے رہے یعنی یعنی تہہ بھی اک سطح کی تعبیر ہے سنتے تھے یہی سطح پر تیرنے والوں کی زبانی یعنی مل گئی خاک میں بنیاد چمن زار وجود اپنی معراج کو پہنچی ہمہ دانی یعنی اپنے محمل سے نکل آئے جو محمل میں نہیں وحشت قیس کے ہیں آج یہ معنی ...

    مزید پڑھیے

    محرومیوں کا اک سبب جوش طلب خود بھی تو ہے

    محرومیوں کا اک سبب جوش طلب خود بھی تو ہے شعلے پہ لپکا اس طرح جیسے کوئی گل ہی تو ہے کس وہم کس چکر میں ہو خودبیں بگولوں دم تو لو سینے میں دل ہو بھی کہیں مانا کہ بیتابی تو ہے سوجھے مگر کیا شمع کو اپنے اجالے کے سوا ہر چند ذوق دید کا میدان تاریکی تو ہے جھانکا ہے میں نے ساز میں پردہ ہٹا ...

    مزید پڑھیے

    جو زخموں سے اپنے بہلتے رہیں گے

    جو زخموں سے اپنے بہلتے رہیں گے وہی پھول ہیں شہد اگلتے رہیں گے گھٹائیں اٹھیں سانپ ویرانیوں کے انہی آستینوں میں پلتے رہیں گے شریعت خس و خار ہی کی چلے گی علم رنگ و بو کے نکلتے رہیں گے نئی بستیاں روز بستی رہیں گی جنہیں میرے صحرا نگلتے رہیں گے مچلتے رہیں روشنی کے پتنگے دیے میرے ...

    مزید پڑھیے

    اندر تو خیالوں کے ہو آئے خیال اپنا

    اندر تو خیالوں کے ہو آئے خیال اپنا افشائے حقیقت سے ڈرتا ہے سوال اپنا کاغذ کی صداقت ہوں گو وقف کتابت ہوں صفحوں سے عبارت ہوں کھلنا ہے محال اپنا آئینہ ہے ذات اپنی معمور ہوں جلووں سے مستور ہے نظروں سے ہر چند جمال اپنا خوش ہے کہ جو ٹوٹی ہے آخر کوئی شے ہوگی خود میں نظر آتا ہے شیشے کو ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آگ میں بھنتی جائے بنتی جائے کفن اپنا

    اپنی آگ میں بھنتی جائے بنتی جائے کفن اپنا گویا اسی لیے چھوڑا ہے چنگاری نے وطن اپنا جھونکے کچھ بے جان ہوا کے آتے ہیں اپنے آپ چلے جھوم اٹھتے ہیں چمن کے پنکھے اس کو جان کے فن اپنا خود رو سبزے چھیڑ رہے ہیں جنگل کے قانون کے راگ کب تک باغ میں پڑھوائیں گے خطبہ سرو و سمن اپنا دریا دل ہے ...

    مزید پڑھیے

    سایہ جس کا نظر آتا ہے مجھے

    سایہ جس کا نظر آتا ہے مجھے وہ بھی سایہ نظر آتا ہے مجھے وہ جو ہوتا ہی چلا جاتا ہے کچھ نہ ہوگا نظر آتا ہے مجھے چاٹ جاتی ہے نظاروں کو نظر کیا کہوں کیا نظر آتا ہے مجھے آئنہ پھاند گیا جوش جنوں بالکل ایسا نظر آتا ہے مجھے ہر لکھا خامۂ دانائی کا آج الٹا نظر آتا ہے مجھے کیا غضب ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    نقاد اپنے آپ کا بے لاگ ایسا کون ہے

    نقاد اپنے آپ کا بے لاگ ایسا کون ہے ہونا مرا اک وہم ہے دیکھوں یہ کہتا کون ہے وہ آفتاب حسن ہے جلوے لٹائے جائے گا اس کو اب اس سے کیا غرض مشتاق کتنا کون ہے وحدت ہے یہ بھی دیدنی میں ہوں نظر وہ روشنی گو یہ گرہ کھلتی نہیں آئینہ کس کا کون ہے میں اپنے گنبد کا مکیں سایہ سا دیکھا ڈر گیا اب ...

    مزید پڑھیے

    اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم

    اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم حالانکہ یہیں تھے کہیں آئے نہ گئے ہم گرداب میں کیا ہے جسے طوفان مٹائے ہاں گردش دوراں سے مٹائے نہ گئے ہم پالا تھا اسے باد سے باراں سے بچا کر جس آگ سے اے شمع بچائے نہ گئے ہم ہیں بند یہ کس آئینہ خانے میں کہ باہر نایاب نظارے نظر آئے، نہ گئے ہم

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2