خیال ذہن شکن سے زبان بھر آ جائے

خیال ذہن شکن سے زبان بھر آ جائے
یہ ہو تو ہاتھ مرے کوئی شعر تر آ جائے


ہمارے مٹنے سے دنیا ہوئی ہے ایسی نہاں
کہ جیسے بیج سے باہر کوئی شجر آ جائے


بنائی میں نے جو بے‌‌ صورتی کے پتھر سے
میں کیا کروں اسی مورت پہ دل اگر آ جائے


چمن تمام تو آہٹ پہ اس کی جھوم اٹھا
یہاں یہ خبط وہ سیل ہوا نظر آ جائے


بھنور مصر ہے کہ آغوش تنگ میں دریا
تمام وسعت نخوت سمیٹ کر آ جائے


کشش بھی اس کی غضب رعب حسن بھی ایسا
کہ سامنا ہی نہ کر پاؤں وہ اگر آ جائے


رہو گے پھر بھی محبؔ سطح بحر ہی سے دو چار
اگر تمہارے لیے تہہ بھی سطح پر آ جائے