اس کو پا جاؤں کبھی ایسا مقدر ہے کہاں

اس کو پا جاؤں کبھی ایسا مقدر ہے کہاں
اور اٹھا لوں اس سے دل یہ زور دل پر ہے کہاں


گھٹ کے رہ جائے نہ سر ہی میں کہیں ذوق سجود
میں تو سر ہر در پہ رکھ دوں پر کوئی در ہے کہاں


نغمہ ریزی ساز کی بازی گری مطرب کی ہے
نغمہ کوئی بے نوا تاروں کے اندر ہے کہاں


اس کے ہونٹوں سے جھلکتی ہے مری لب تشنگی
کھنچ رہی ہے مے کہاں پر اور ساغر ہے کہاں


میں وہاں رہتا ہوں گنجائش جہاں میری نہیں
کیا کہوں کس گھر میں رہتا ہوں مرا گھر ہے کہاں


خود کو دیکھا ہے جب ان آنکھوں میں جھانکا ہے محبؔ
مجھ کو اتنا قرب خود سے بھی میسر ہے کہاں