شعلۂ شوق کی آغوش میں کیوں کر آؤں

شعلۂ شوق کی آغوش میں کیوں کر آؤں
اک تمنا ہوں کہ مٹ جاؤں اگر بر آؤں


ایک دعوت ہوں اگر ان کے لبوں پر کھیلوں
ایک حسرت ہوں اگر خود کو میسر آؤں


ہر طرف سے مجھے کیا گھور رہی ہیں آنکھیں
خواب ہوں دیدۂ بے دار میں کیوں کر آؤں


ایک عالم ہوں جسے بس کوئی محسوس کرے
کوئی معنی ہوں کہ الفاظ کے اندر آؤں


نقش بر آب سہی کچھ بھی سہی ہوں تو سہی
ریت کی قید میں کیا خود سے بچھڑ کر آؤں


میری پہچان ہو شاید انہیں ذروں کی چمک
اپنے گھر میں اسی زینے سے اتر کر آؤں


میری آیات پہ ایمان نہ لانے والو
تاب لاؤ گے اگر جلد سے باہر آؤں


پھونک ڈالیں مرے شعلے نے فضائیں ساری
اسی دھن میں کہ نظر اپنے برابر آؤں


لے چکا آب بقا تجھ سے اب اے بحر عرب
اڑ کے جاتا ہوں کہ یہ قرض ادا کر آؤں


اپنے دامن میں کہو آگ سنبھالوں کیوں کر
ہاتھ اپنے تو محبؔ خیر سے اکثر آؤں