محبت پھر سے کرتے ہیں
چلو جو بھی ہوا جاناں اسے ہم بھول جاتے ہیں گلے شکوے شکایت جو بھی ہے دل سے مٹا کر ہم نیا آغاز کرتے ہیں محبت پھر سے کرتے ہیں
چلو جو بھی ہوا جاناں اسے ہم بھول جاتے ہیں گلے شکوے شکایت جو بھی ہے دل سے مٹا کر ہم نیا آغاز کرتے ہیں محبت پھر سے کرتے ہیں
آسماں پر اداس بیٹھا چاند رات بھر تارے گنتا رہتا ہے چاہتا ہے کے جھک کے دھرتی کی چوم لے یہ چمکتی پیشانی اور حسرت نکال لے دل کی کون سمجھائے پر دیوانے کو خواہشیں حسرتیں جو ہیں دل کی خواہشیں حسرتیں ہی رہتی ہیں خواہشوں پر چلا ہے بس کس کا حسرتیں کس کو راس آئی ہیں
میری اک نظم جو جنمی ہے ابھی ذہن کی کوکھ سے روتے روتے جس کو کاغذ پہ سلایا ہے بڑی مشکل سے ہاں وحی نظم مری پیاری سی بھولی بھالی آؤ آ کر اسے اچھا سا کوئی نام تو دو تاکہ دنیا میں اسے بھی کوئی پہچان ملے
جانے کتنی آوازوں کا خون بہا کر چین سے سوئی ہے کمرے میں خاموشی اب کوئی آواز نہ کرنا چپ رہنا ایک بھی حرف اگر غلطی سے تیرے لبوں سے چھوٹ گیا اور گر کر فرش پہ چھن سے ٹوٹ گیا تو تڑپ تڑپ کر مر جائے گی خاموشی
کل اس نے پوچھ ہی ڈالا تم آخر کون ہو میرے ہمارے درمیاں جو اک تعلق ہے جو رشتہ ہے وہ آخر کون سا ہے نام کیا ہے کچھ بتاؤگے تو میں نے کہہ دیا رشتہ وہی ہے درمیاں اپنے جو آنکھوں کا ہے نیندوں سے جو نیندوں کا ہے خوابوں سے جو خوابوں کا ہے راتوں سے جو راتوں کا اندھیروں سے اندھیروں کا ...
میں اسے روک نہ پایا وہ مجھے چھوڑ گیا جھڑتی سانسو کا اسے میں نے حوالہ بھی دیا سرد ہوتی ہوئی نبضیں بھی اسے پکڑائیں اس نے خاک ہوتے ہوئے خواہشیں میری دیکھیں میرے خوابوں کا نگر لٹتے ہوئے بھی دیکھا میری آنکھوں کے برستے ہوئے بادل دیکھے میرے گالوں پہ چمکتے ہوئے اشکوں کے ستارے دیکھے خشک ...
جب سے کھولی ہے آنکھ دنیا میں ایک ہی دھن سوار رہتی ہے جسم کا کھول جو ملا ہے مجھے سانس لے لے کے توڑ دوں اس کو اور دھرتی کی گود میں چپ چاپ آ کے سو جاؤں میں امر ہو جاؤں
میں نے تیری یاد کا لمحہ بویا تھا خون پلایا تھا دھرتی کو درد و غم کی کھاد بھی ڈالی میرے آنسو کے سورج نے ہجر کے پودے کو سینچا تھا اور اب دیکھو ہجر کا پودا پیڑ بنا تو اس پر وصل کے پھول اور پھل آئے ہیں