Mohammad Sharfuddin Sahil

محمد شرف الدین ساحل

محمد شرف الدین ساحل کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    بلائے جاں ہے ثمر بد حواس ہونے کا

    بلائے جاں ہے ثمر بد حواس ہونے کا نتیجہ دیکھ لو تم خود اداس ہونے کا خط محیط ہے حبل الورید کے ہے قریب یقین رکھ تو اسے اپنے پاس ہونے کا ہوئے ہیں نیم برہنہ ہوس نے کھیتوں میں دیا نہ موقع ہی پیدا کپاس ہونے کا ہر اک خیال ہے نفس شریر کے تابع مگر ہے دعویٰ اسے حق شناس ہونے کا لپک کے چھین ...

    مزید پڑھیے

    دیتے ہیں جس کو خون جگر کم بہت ہی کم

    دیتے ہیں جس کو خون جگر کم بہت ہی کم آتے ہیں اس شجر پہ ثمر کم بہت ہی کم باقی ہیں اب بھی دل پہ مرے زخم حادثات احساس درد تو ہے مگر کم بہت ہی کم یہ منحصر ہے کسب حلال و حرام پر ہوتا ہے اب دعا میں اثر کم بہت ہی کم واعظ کی گفتگو میں جو دام فریب ہے پاتے ہیں اس سے لوگ مفر کم بہت ہی کم غواص ...

    مزید پڑھیے

    محفوظ نہیں ذوق ہوس دست فنا سے

    محفوظ نہیں ذوق ہوس دست فنا سے قدرت نے نوازا ہے محبت کو بقا سے ہر حرف مقدس ہے حقیقت کا محافظ منصور ہے معتوب انا الحق کی صدا سے ریشم کی طرح نرم ہے بے شک ترا لہجہ آئینۂ دل ٹوٹ گیا ضرب انا سے دزدیدہ نگاہی نے دکھایا یہ کرشمہ اچھا ہوا بیمار دوا سے نہ دعا سے تا عمر ستائے گی تجھے میری ...

    مزید پڑھیے

    دفعتاً ہو گئی گل شمع وفا تیرے بعد

    دفعتاً ہو گئی گل شمع وفا تیرے بعد خانۂ دل میں اجالا نہ ہوا تیرے بعد موسم جوش جنوں میں ہوا پامال چمن لے اڑی خوشبوئے گل باد صبا تیرے بعد جام مے شعلہ‌ٔ جوالہ نظر آتا ہے آگ برساتی ہے ساون کی گھٹا تیرے بعد باطنی کرب و اذیت میں بتاؤں کس کو کوئی ہم راز مجھے مل نہ سکا تیرے بعد جب بھی ...

    مزید پڑھیے

    سوچ اپنی بدل رہا ہوں میں

    سوچ اپنی بدل رہا ہوں میں کف افسوس مل رہا ہوں میں جو مسرت کو مات دیتی ہے فکر میں ایسی ڈھل رہا ہوں میں ظلمت شب میں روشنی کے لیے شمع کی طرح جل رہا ہوں میں مثل گل خوش نصیب ہوں کتنا بیچ کانٹوں کے پل رہا ہوں میں آتش غم لگی ہے سینے میں موم جیسا پگھل رہا ہوں میں ظلم پر احتجاج لازم ہے خون ...

    مزید پڑھیے

تمام

8 نظم (Nazm)

    کیا اور کون

    پرانے دور میں رہتا تھا اک کسان ایسا جو بات بات پہ سب سے سوال کرتا تھا حسین اور ذہین اپنے دونوں بیٹوں کے خود اس نے نام بھی کیا اور کون رکھے تھے بڑا تھا عمر میں کیا اس سے کون تھا چھوٹا شریر دونوں تھے اور قد تھا دونوں کا اونچا یہ واقعہ ہے کہ اک روز اپنی حاجت سے ضعیف آیا کوئی ان کے باپ ...

    مزید پڑھیے

    برسات

    بادل گرج رہا ہے بجلی چمک رہی ہے پر کیف ہیں فضائیں ہر شے دمک رہی ہے باد خنک چمن میں بل کھا کے چل رہی ہے برگ حنا کی رنگت پہلو بدل رہی ہے چہرے پہ یاسیت کے نور شباب چھایا مخمل کا سبز قالیں فطرت نے یوں بچھایا مایوس ہر شجر نے بدلا لباس اپنا ہر مرغ خوش نوا نے چھیڑا نیا ترانا نکلی صدائے ...

    مزید پڑھیے

    گرمی

    سردی گزری گرمی آئی ساتھ میں اپنے ہلچل لائی گرم ہوا ہر سو چلتی ہے سورج سے دھرتی جلتی ہے انسانوں کا حال برا ہے حیوانوں میں حشر بپا ہے جھلس رہے ہیں پیڑ اور پودے پگھل رہے ہیں برف کے تودے سوکھ گئے ہیں ندی نالے پڑ گئے سب کی جان کے لالے اترا ہوا ہے سب کا چہرہ گھر کے باہر لو کا خطرہ ڈھونڈ ...

    مزید پڑھیے

    آرزو

    خدایا آرزو میری یہی ہے یہ حسرت دل میں کروٹ لے رہی ہے بنوں کمزور لوگوں کا سہارا دکھی لوگوں کو دوں ہر دم دلاسا ضعیفوں بے کسوں کے کام آؤں غریبوں مفلسوں کے کام آؤں میں اپنے دوستوں کا دکھ اٹھاؤں جو روٹھے ہوں انہیں ہنس کر مناؤں برائی سے سدا لڑتا رہوں میں بھلا ہر کام ہی کرتا رہوں ...

    مزید پڑھیے

    سردی

    سردی بارش کے بعد آتی ہے اک شگوفہ نیا کھلاتی ہے دن سکڑتا ہے رات بڑھتی ہے کہرے کی حکمرانی ہوتی ہے اس میں شبنم ٹپکتی ہے گل پر اس سے ہوتا ہے خشک گلشن تر اس میں آتا ہے برگ گل پہ شباب اس میں کھلتے ہیں ہر طرح کے گلاب یہ دکھاتی ہے جب اثر اپنا سارا ماحول ہوتا ہے ٹھنڈا جب ہوا خوب ٹھنڈی چلتی ...

    مزید پڑھیے

تمام