Mohammad Shahid Firoz

محمد شاہد فیروز

محمد شاہد فیروز کی غزل

    ہم ہیں ٹوٹے ہوئے ہم ہیں ہارے ہوئے

    ہم ہیں ٹوٹے ہوئے ہم ہیں ہارے ہوئے داستانوں میں وہ جو ہیں مارے ہوئے زندگی کے فریبوں سے کس کو مفر اس کے ہاتھوں گرفتار سارے ہوئے وہ جو بجھتے گئے تیرگی بن گئے وہ جو روشن رہے وہ ستارے ہوئے دیکھ ہم بھی ذبیحوں کے اس ڈھیر میں تیرے قدموں پہ کب سے ہیں وارے ہوئے لوگ ہیں خوف کی دائمی قید ...

    مزید پڑھیے

    جب دیا خاموش تھا اور روشنی ہوتی نہ تھی

    جب دیا خاموش تھا اور روشنی ہوتی نہ تھی رات کیا آتی تھی گویا زندگی ہوتی نہ تھی جن دنوں لوگوں کی آنکھیں خواہشوں سے دور تھیں ان دنوں اس شہر کی یہ دل کشی ہوتی نہ تھی اپنی اپنی رغبتوں پر جب تلک تھا اختیار تیرے میرے درمیاں یہ بے بسی ہوتی نہ تھی ان دنوں کی بات ہے جب ہم تھے مٹی سے جڑے بے ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے نقش بنا لوں تو پھر نکلتے ہیں

    میں اپنے نقش بنا لوں تو پھر نکلتے ہیں ذرا وجود میں آ لوں تو پھر نکلتے ہیں بہت اڑائے ہے یہ خاک چار سو میری گماں کی خاک اڑا لوں تو پھر نکلتے ہیں میں اپنے کرب کا اعلان کرنے والا ہوں میں کھل کے شور مچا لوں تو پھر نکلتے ہیں مجھے تمام غموں سے بچھڑ کے جانا ہے انہیں گلے سے لگا لوں تو پھر ...

    مزید پڑھیے

    اسی میں ذات کا ادراک ارتقا کا شعور

    اسی میں ذات کا ادراک ارتقا کا شعور مری نظر میں محبت ہے انتہا کا شعور مرے وجود سے پہلے کہاں تھا ذکر جمال کہاں تھی عشق سی لذت کہاں وفا کا شعور جھکی جبیں تو عقیدت سے آشنائی ہوئی اٹھائے ہاتھ تو ان میں پڑا دعا کا شعور وہ سر دکھائے مجھے جس میں خود سری ہے ابھی وہ ہاتھ اونچا کرے جس کو ...

    مزید پڑھیے

    خواب گر خواب بناتا ہی چلا جاتا ہے

    خواب گر خواب بناتا ہی چلا جاتا ہے جس کو جو آئے سمجھ اس کو اٹھا لاتا ہے رات بجھتی ہے تو جاگ اٹھتے ہیں وحشی منظر دن اجڑتا ہے تو دل خوف پہ اکساتا ہے تو نے جلتے ہوئے منظر کو ہوا کیوں دی تھی راکھ اب اڑنے لگی ہے تو کدھر جاتا ہے یہ ترے سوچے ہوئے رنگ کا محتاج نہیں حسن تو حسن ہے ہر رنگ میں ...

    مزید پڑھیے

    ہر روز پہلے روز سے بہتر ملا ہے خوف

    ہر روز پہلے روز سے بہتر ملا ہے خوف ایسا نہیں کہ ایک ہی جیسا رہا ہے خوف جس نے تمہاری نیند کی دنیا اجاڑ دی مجھ کو بھی ایک ایسی ہی آواز کا ہے خوف میرے مزاج کا ہے مرا عکس خد و خال سب سے الگ تھلگ ہوں میں سب سے جدا ہے خوف یہ کائنات دونوں کی مرضی سے ہے بنی تیری عطا ہے زندگی میری عطا ہے ...

    مزید پڑھیے

    سوچ رکھی تھیں بہت باتیں میں اب بھول گیا

    سوچ رکھی تھیں بہت باتیں میں اب بھول گیا رنگ محفل ہی کچھ ایسا ہے کہ سب بھول گیا وہ اذیت تھی کہ دن رات گزرتے ہی نہ تھے پھر ہوا یوں کہ اذیت کا سبب بھول گیا یہ مرا سر کو جھٹکنا تجھے سمجھاتا نہیں کب ترے سحر سے نکلا تجھے کب بھول گیا ایک ہی رخ پہ پڑا خود سے میں اکتانے لگا اتنا اکتایا کہ ...

    مزید پڑھیے

    آسماں ٹوٹ پڑا ہے چھت پر

    آسماں ٹوٹ پڑا ہے چھت پر مطمئن ہوں کہ خدا ہے چھت پر یہ ٹپکنے کی نہیں ہے پیارے کثرت زر کی دعا ہے چھت پر مجھ میں اب تک ہے یہی خوف بسا چیخ میں ڈوبی صدا ہے چھت پر ایک مفلس نے کہا بارش سے دیکھ میرا بھی خدا ہے چھت پر وقت نیچے بھی اتارے گا اسے عمر بھر کون رہے گا چھت پر محو حیرت ہے ہر اک ...

    مزید پڑھیے

    ترا لہجہ تری پہچان مبارک ہو تجھے

    ترا لہجہ تری پہچان مبارک ہو تجھے تری وحشت ترا ہیجان مبارک ہو تجھے میں محبت کا پجاری ہوں سو میں جاتا ہوں یعنی نفرت کا یہ سامان مبارک ہو تجھے آنکھ میں طنز و رعونت کی چمک باقی رہے لب پہ یہ تلخ سی مسکان مبارک ہو تجھے میں دعا کرتا ہوں تو شہر چراغاں میں رہے ترا ہر خواب گلستان مبارک ...

    مزید پڑھیے

    جب کھنڈر حویلی کے کان میں صدا ڈالی

    جب کھنڈر حویلی کے کان میں صدا ڈالی اس نے تو صداؤں کی گرد مجھ پہ لا ڈالی قافلے سے کیا بچھڑے دیکھ رائگانی اب منزلوں پہ جانے کی سوچ بھی گنوا ڈالی خوف کا جو دریا تھا پار کر نہیں پائے خواہشوں کی شہزادی بس وہیں بہا ڈالی تیرگی کے گالوں پر پیار سے دیا بوسہ روشنی کی خواہش تھی روشنی بنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2