جب دیا خاموش تھا اور روشنی ہوتی نہ تھی
جب دیا خاموش تھا اور روشنی ہوتی نہ تھی
رات کیا آتی تھی گویا زندگی ہوتی نہ تھی
جن دنوں لوگوں کی آنکھیں خواہشوں سے دور تھیں
ان دنوں اس شہر کی یہ دل کشی ہوتی نہ تھی
اپنی اپنی رغبتوں پر جب تلک تھا اختیار
تیرے میرے درمیاں یہ بے بسی ہوتی نہ تھی
ان دنوں کی بات ہے جب ہم تھے مٹی سے جڑے
بے کلی معدوم تھی اور بے دلی ہوتی نہ تھی
دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل کر رہ گیا
یہ گلی سونی تھی جب تک آپ کی ہوتی نہ تھی
اپنے اپنے دن تھے سب کے اپنی اپنی رات تھی
کوئی بھی شے جب نظر میں مرکزی ہوتی نہ تھی
جب در و دیوار آئے تو اٹھی دیوار بھی
گھر نہیں تھا تو ہماری بے گھری ہوتی نہ تھی
عشق نے جب تک جنوں کا راستہ دیکھا نہ تھا
زندگی بے کیف تھی تیشہ گری ہوتی نہ تھی
اس زمیں کا خالی پن تھا اور ہوا کا شور تھا
ان دنوں کی بات ہے جب شاعری ہوتی نہ تھی
جس کی شادابی ہمیں لے آئی ہے شاہدؔ یہاں
اس جزیرے پر کبھی کیا زندگی ہوتی نہ تھی