Mohammad Shahid Firoz

محمد شاہد فیروز

محمد شاہد فیروز کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    ہم ہیں ٹوٹے ہوئے ہم ہیں ہارے ہوئے

    ہم ہیں ٹوٹے ہوئے ہم ہیں ہارے ہوئے داستانوں میں وہ جو ہیں مارے ہوئے زندگی کے فریبوں سے کس کو مفر اس کے ہاتھوں گرفتار سارے ہوئے وہ جو بجھتے گئے تیرگی بن گئے وہ جو روشن رہے وہ ستارے ہوئے دیکھ ہم بھی ذبیحوں کے اس ڈھیر میں تیرے قدموں پہ کب سے ہیں وارے ہوئے لوگ ہیں خوف کی دائمی قید ...

    مزید پڑھیے

    جب دیا خاموش تھا اور روشنی ہوتی نہ تھی

    جب دیا خاموش تھا اور روشنی ہوتی نہ تھی رات کیا آتی تھی گویا زندگی ہوتی نہ تھی جن دنوں لوگوں کی آنکھیں خواہشوں سے دور تھیں ان دنوں اس شہر کی یہ دل کشی ہوتی نہ تھی اپنی اپنی رغبتوں پر جب تلک تھا اختیار تیرے میرے درمیاں یہ بے بسی ہوتی نہ تھی ان دنوں کی بات ہے جب ہم تھے مٹی سے جڑے بے ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے نقش بنا لوں تو پھر نکلتے ہیں

    میں اپنے نقش بنا لوں تو پھر نکلتے ہیں ذرا وجود میں آ لوں تو پھر نکلتے ہیں بہت اڑائے ہے یہ خاک چار سو میری گماں کی خاک اڑا لوں تو پھر نکلتے ہیں میں اپنے کرب کا اعلان کرنے والا ہوں میں کھل کے شور مچا لوں تو پھر نکلتے ہیں مجھے تمام غموں سے بچھڑ کے جانا ہے انہیں گلے سے لگا لوں تو پھر ...

    مزید پڑھیے

    اسی میں ذات کا ادراک ارتقا کا شعور

    اسی میں ذات کا ادراک ارتقا کا شعور مری نظر میں محبت ہے انتہا کا شعور مرے وجود سے پہلے کہاں تھا ذکر جمال کہاں تھی عشق سی لذت کہاں وفا کا شعور جھکی جبیں تو عقیدت سے آشنائی ہوئی اٹھائے ہاتھ تو ان میں پڑا دعا کا شعور وہ سر دکھائے مجھے جس میں خود سری ہے ابھی وہ ہاتھ اونچا کرے جس کو ...

    مزید پڑھیے

    خواب گر خواب بناتا ہی چلا جاتا ہے

    خواب گر خواب بناتا ہی چلا جاتا ہے جس کو جو آئے سمجھ اس کو اٹھا لاتا ہے رات بجھتی ہے تو جاگ اٹھتے ہیں وحشی منظر دن اجڑتا ہے تو دل خوف پہ اکساتا ہے تو نے جلتے ہوئے منظر کو ہوا کیوں دی تھی راکھ اب اڑنے لگی ہے تو کدھر جاتا ہے یہ ترے سوچے ہوئے رنگ کا محتاج نہیں حسن تو حسن ہے ہر رنگ میں ...

    مزید پڑھیے

تمام