میں اپنے نقش بنا لوں تو پھر نکلتے ہیں
میں اپنے نقش بنا لوں تو پھر نکلتے ہیں
ذرا وجود میں آ لوں تو پھر نکلتے ہیں
بہت اڑائے ہے یہ خاک چار سو میری
گماں کی خاک اڑا لوں تو پھر نکلتے ہیں
میں اپنے کرب کا اعلان کرنے والا ہوں
میں کھل کے شور مچا لوں تو پھر نکلتے ہیں
مجھے تمام غموں سے بچھڑ کے جانا ہے
انہیں گلے سے لگا لوں تو پھر نکلتے ہیں
اس ایک روگ نے چھینا ہے زندگی کا سکوں
ذرا یہ بھوک چرا لوں تو پھر نکلتے ہیں
میں ترک خواہش دنیا اٹھائے پھرتا ہوں
ذرا یہ لاش دبا لوں تو پھر نکلتے ہیں
جنوں کی راہ پہ اب عشق چل پڑا شاہدؔ
جنوں کے ہوش اڑا لوں تو پھر نکلتے ہیں