جب کھنڈر حویلی کے کان میں صدا ڈالی
جب کھنڈر حویلی کے کان میں صدا ڈالی
اس نے تو صداؤں کی گرد مجھ پہ لا ڈالی
قافلے سے کیا بچھڑے دیکھ رائگانی اب
منزلوں پہ جانے کی سوچ بھی گنوا ڈالی
خوف کا جو دریا تھا پار کر نہیں پائے
خواہشوں کی شہزادی بس وہیں بہا ڈالی
تیرگی کے گالوں پر پیار سے دیا بوسہ
روشنی کی خواہش تھی روشنی بنا ڈالی
دل کے اس علاقے میں گلستاں کی حاجت ہے
پھول میں بناتا ہوں تو بنا کے لا ڈالی
بد گمان لوگوں کو بولنے پہ اکسایا
حبس کے سمندر میں یعنی کچھ ہوا ڈالی
منتظر رہے شاہدؔ کچھ بھی ہو نہیں پایا
رات دن کے پھیرے میں زندگی مٹا ڈالی