آسماں ٹوٹ پڑا ہے چھت پر

آسماں ٹوٹ پڑا ہے چھت پر
مطمئن ہوں کہ خدا ہے چھت پر


یہ ٹپکنے کی نہیں ہے پیارے
کثرت زر کی دعا ہے چھت پر


مجھ میں اب تک ہے یہی خوف بسا
چیخ میں ڈوبی صدا ہے چھت پر


ایک مفلس نے کہا بارش سے
دیکھ میرا بھی خدا ہے چھت پر


وقت نیچے بھی اتارے گا اسے
عمر بھر کون رہے گا چھت پر


محو حیرت ہے ہر اک بینائی
کوئی تو کھیل بپا ہے چھت پر


راہ میں آئے تو لگتا ہے بھلا
دیکھنے میں جو برا ہے چھت پر


چاند اترا ہے مرے پہلو میں
نور میں ڈوبی فضا ہے چھت پر


جب سے رستے پہ لگی ہیں نظریں
راستہ بنتا گیا ہے چھت پر


حبس کمرے کا بتانے آیا
محترم آج ہوا ہے چھت پر


شوق سے دیکھ رہی ہے دنیا
حسن تصویر بنا ہے چھت کر


یہ بھی رخصت کا عجب لمحہ ہے
شہر کا شہر کھڑا ہے چھت پر


وقت رستے سے اٹھا لایا ہے
دیکھ شاہدؔ بھی گیا ہے چھت پر