Mohammad Shafiuddin Nayyar

محمد شفیع الدین نیر

  • 1903 - 1978

محمد شفیع الدین نیر کی نظم

    اچھی چڑیا

    ۱ ایک تھی چڑیا ایک تھا کوا ایک تھی مینا ایک تھا طوطا ایک تھی بلی ایک تھا کتا ایک تھی مرغی ایک تھا بکرا چڑیا کوا مینا طوطا بلی کتا مرغی بکرا یہ سب ساتھ رہا کرتے تھے دکھ سکھ ساتھ سہا کرتے تھے ۲ اچھی چڑیا بھولی بھولی اک دن ان سب سے بولی آؤ چل کر کام کریں کچھ کام کریں کچھ نام کریں ...

    مزید پڑھیے

    باغبانی

    بچوں نے اک باغ لگایا باغ کو اپنے خوب سجایا کرتے وہ کام باری باری پودے لگاتے کیاری کیاری روز وہ خبر اس کی لیتے وقت پہ کھاد اور پانی ڈالتے رنگ برنگے پھول مہکتے آ کے پرندے اس پہ چہکتے پھل بھی میٹھے میٹھے آتے پھل بھی وہ جو سب کو بھاتے جو بھی بچہ محنت کرتا وقت مزے سے اس کا گزرتا

    مزید پڑھیے

    طوطا

    طوطے والا طوطے لایا طوطے لو طوطے چلایا سبز پروں کی وردی سب کی ٹیڑھی چونچ نرالے ڈھب کی طوطے والے کو بلوا کر اک طوطے کے دام چکا کر قیمت دی اور ہم نے خریدا لوہے کے پنجرے میں رکھا پنجرے میں اک روٹی ڈالی خوش ہو کر طوطے نے اٹھا لی آپ تو بس تھوڑا ہی کھایا کتر کتر کر ڈھیر لگایا ہم نے اسے ...

    مزید پڑھیے

    تارے

    چمکو چمکو تارو چمکو چمکو چمکو پیارو چمکو دور یہاں سے تم ہو چمکتے جانے کہاں سے تم ہو چمکتے کندن کے مانند دمکتے دنیا کو حیرت سے تکتے جب کہ اندھیرا گھپ چھاتا ہے روشن سورج چھپ جاتا ہے ایک نظر سے سب کو تکنا ساری ساری رات چمکنا تم نے کیوں یہ عادت کر لی کیوں یہ خدمت اپنے سر لی راہ جو ان ...

    مزید پڑھیے

    عید کی خوشی

    لو پھر ہماری عید آ گئی ہے ہر ایک خوش ہے گھر گھر خوشی ہے کیا قہقہے ہیں کیا دل لگی ہے ہر سمت گویا شادی رچی ہے منی اٹھے گی تڑکے سویرے جھٹ پٹ نہا کر پہنے گی کپڑے کپڑے بھی کیسے گوٹے زری کے ریشم کا جمپر مخمل کے جوتے پہنے گی منی زیور بھی اپنے زیور جو اس کے ابا ہیں لائے ہاتھوں میں کنگن پاؤں ...

    مزید پڑھیے

    شرارت کا مزہ

    ایک لڑکے کا نام ارشد نام تھا ارشد کام تھے سب بد دن بھر خوب شرارت کرتا پھر بھی اس کا پیٹ نہ بھرتا اس کو چھوا اس چیز کو توڑا اس کو لیا اس چیز کو پھوڑا ساتھی اس سے گھبراتے تھے دیکھتے ہی کترا جاتے تھے اک دن کا ہے ذکر ہوا کیا آپ نے دیکھا شہد کا چھتا دیکھتے ہی بس کھیل یہ کھیلا مارا اس پر ...

    مزید پڑھیے

    بہار کا موسم

    نہ گرمیوں کا زور ہے نہ سردیوں کی مار ہے نہ دھوپ تن پہ بار ہے نہ ٹھنڈ ناگوار ہے ہوا بھی خوش گوار ہے نہ گرم ہے نہ سرد ہے نہ بجلیاں نہ آندھیاں نہ ابر ہے نہ گرد ہے ہیں سبزہ زار ان دنوں پہاڑ دشت اور بن ہے سچ تو یوں بہار پر ہے آج کل چمن چمن ہیں جنگلوں میں سبز سبز کھیت لہلہا رہے عجب ادا سے ...

    مزید پڑھیے

    کھیل کا گیت

    آؤ گھیرا ایک بنا لیں اپنے اپنے ہاتھ ملا لیں سینہ تان کھڑے ہو جائیں اوپر کو گردن بھی اٹھائیں ایڑی سے ایڑی کو ملا کر پیر کے پنجوں کو پھیلا کر اپنے اپنے پاؤں اٹھائیں چلتے جائیں چکر کھائیں پہلے پورا چکر کھا لیں چکر کھا کر دل بہلا لیں پھر ہم سب رک جائیں دم بھر آگے کو بڑھ جائیں قدم ...

    مزید پڑھیے

    میں کیا چاہتا ہوں

    میں کیا چاہتا ہوں میں کیا چاہتا ہوں میں دنیا کا عالم نیا چاہتا ہوں وہ فرقے جو رہتے ہیں ہندوستاں میں انہیں ایک دل دیکھنا چاہتا ہوں ہو مقصد یہاں جن کا ایذا رسانی میں ان طاقتوں کی فنا چاہتا ہوں عداوت کا نفرت کا انجام بد ہے میں اس بات کو سوچنا چاہتا ہوں غریبی سے اب جان پر آ بنی ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    شرارت کا مزا

    رشیدہ تھی یوں تو بڑی نیک لڑکی مگر اس میں یہ ایک عادت بری تھی وہ ہر چیز کو چھوتی اور چھیڑتی تھی یہ بات اس کی گھٹی میں گویا تھی برائی ہو اک بھی تو کیسی بری ہے بھلائی کی رگ کاٹنے کو چھری ہے کبھی چائے دانی کا ڈھکنا اٹھاتی وہ یہ جھانک کر دیکھتی اس میں کیا ہے کبھی کیتلی کو الٹ کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5