میں کیا چاہتا ہوں

میں کیا چاہتا ہوں میں کیا چاہتا ہوں
میں دنیا کا عالم نیا چاہتا ہوں
وہ فرقے جو رہتے ہیں ہندوستاں میں
انہیں ایک دل دیکھنا چاہتا ہوں
ہو مقصد یہاں جن کا ایذا رسانی
میں ان طاقتوں کی فنا چاہتا ہوں
عداوت کا نفرت کا انجام بد ہے
میں اس بات کو سوچنا چاہتا ہوں
غریبی سے اب جان پر آ بنی ہے
میں اس حال کو روکنا چاہتا ہوں
وطن کی ترقی کا ہے راز اس میں
میں آزاد آب و ہوا چاہتا ہوں
بنے دیس پھر اپنا سونے کی چڑیا
کچھ ایسی نئی کیمیا چاہتا ہوں
جو کہتے ہیں یہ کیمیا حریت ہے
میں تائید ان کی کیا چاہتا ہوں
ملے گی نہ یہ کیمیا بے کیے کچھ
یہ اک بات سیدھی کہا چاہتا ہوں
نئی بات ہے مجھ کو نیرؔ گوارہ
ہر انداز اپنا نیا چاہتا ہوں