شرارت کا مزہ
ایک لڑکے کا نام ارشد
نام تھا ارشد کام تھے سب بد
دن بھر خوب شرارت کرتا
پھر بھی اس کا پیٹ نہ بھرتا
اس کو چھوا اس چیز کو توڑا
اس کو لیا اس چیز کو پھوڑا
ساتھی اس سے گھبراتے تھے
دیکھتے ہی کترا جاتے تھے
اک دن کا ہے ذکر ہوا کیا
آپ نے دیکھا شہد کا چھتا
دیکھتے ہی بس کھیل یہ کھیلا
مارا اس پر تاک کے ڈھیلا
مکھیاں پہلے تو گھبرائیں
پھر جھلا کر اس پر آئیں
سب نے مل کر اتنا کاٹا
بھول گئے وہ سیر سپاٹا
پھول کے کپا ہو گئے ارشد
روتے روتے سو گئے ارشد
پھر وہ سیدھے ہو گئے ایسے
نیرؔ سیدھی گائے ہو جیسے