Mohammad Sajjad Mirza

محمد سجاد مرزا

  • 1876 - 1927

محمد سجاد مرزا کی غزل

    جس کی آنکھوں میں کوئی رنگ شناسائی نہ تھا

    جس کی آنکھوں میں کوئی رنگ شناسائی نہ تھا اس سے ملنے کا مرا دل بھی تمنائی نہ تھا ہم دیار غیر میں کہتے رہے ہیں دل کی بات ایک اپنے شہر ہی میں اذن گویائی نہ تھا جذبۂ دل کے بہک جانے سے رسوا ہو گئے کوچۂ محبوب ورنہ کوئے رسوائی نہ تھا ظلمت شب کو جہاں نور سحر کہتے تھے لوگ میرا سچ کہنا ...

    مزید پڑھیے

    کیا ملا سارے جہاں کی خاک ہم کو چھان کر

    کیا ملا سارے جہاں کی خاک ہم کو چھان کر دم بخود بیٹھے ہیں سناٹے کا خیمہ تان کر فکر کے تابوت میں سوچوں کی میت لے گیا گھر سے نکلا تھا وہ جانے جی میں کیا کیا ٹھان کر کس قدر گمبھیرتا تھی اس کی ہر اک بات میں لے گیا میرا سکوں وہ میرا گھر پہچان کر شہر کی گلیوں کے پتھر دشمن جاں کر لئے بھول ...

    مزید پڑھیے

    تبسم دلبرانہ ہو گیا ہے

    تبسم دلبرانہ ہو گیا ہے غضب کا مسکرانا ہو گیا ہے محبت پا گئی ہے اپنی منزل ترے دل میں ٹھکانا ہو گیا ہے مجھے اندیشۂ برق تپاں ہے مکمل آشیانہ ہو گیا ہے نہ جانے کس طرح اس بے خبر سے تعلق غائبانہ ہو گیا ہے مری روداد کس کو یاد ہوگی مرا قصہ پرانا ہو گیا ہے انہیں دل کیوں نہ چاہے دیکھنے ...

    مزید پڑھیے

    جس روز سے قرطاس پہ تحریر ہیں آنکھیں

    جس روز سے قرطاس پہ تحریر ہیں آنکھیں اس روز سے لگتا ہے کہ تصویر ہیں آنکھیں چہرے ہیں سبھی ایک سے گر شہر وفا میں پھر تم ہی کہو کس کی یہ تفسیر ہیں آنکھیں اپنوں نے مجھے لمس کی تبلیغ سے روکا خود حرف محبت ہی کی تشہیر ہیں آنکھیں جس دن سے کوئی قریۂ احساس سے گزرا اس دن سے مرے واسطے زنجیر ...

    مزید پڑھیے

    یہ حسن تبسم یہ کرن دیکھ رہی ہے

    یہ حسن تبسم یہ کرن دیکھ رہی ہے دنیا ترا انداز سخن دیکھ رہی ہے شاید کہ ہے خورشید کی نیت میں خرابی کیوں دھوپ گلابوں کے بدن دیکھ رہی ہے ارمان سفر دھوپ میں جینے کا ہے عادی سائے کی طرف دل کی تھکن دیکھ رہی ہے ہے منظر حیرت کہ اندھیروں کو مری آنکھ پہنے ہوئے کرنوں کا کفن دیکھ رہی ہے جس ...

    مزید پڑھیے

    اسے مکتوب بھی تحریر کرنا

    اسے مکتوب بھی تحریر کرنا لگے ہے چاند کو تسخیر کرنا اسیران قفس کا ہم نوا ہوں مجھے بھی واقف زنجیر کرنا سنبھل جانے دو کچھ وحشت زدہ کو بیاں پھر خواب کی تعبیر کرنا تبسم ریز منظر کہہ رہے ہیں لب جو گھر کوئی تعمیر کرنا ہم اہل دل کا مسلک ہی نہیں ہے کسی انسان کو دلگیر کرنا ہے اب تو بات ...

    مزید پڑھیے

    علامت ہے یہ کیسی اس تغیر کا سبب کیا ہے

    علامت ہے یہ کیسی اس تغیر کا سبب کیا ہے ہرے پتوں پہ حرف زرد کیوں موسم نے لکھا ہے خطوط آگہی پہ جم کے مہکا ہے لہو میرا صلیب فکر پہ لٹکا ہوا جب مجھ کو دیکھا ہے کہیں دیکھے نہ جائیں گے جہاں میں ہم سے دیوانے فریب آرزو ہم نے ہر اک منزل پہ کھایا ہے صداقت کی صدائیں در سے ٹکرا کے پلٹ ...

    مزید پڑھیے

    مری پلکوں پہ آنسو جاگتا ہے

    مری پلکوں پہ آنسو جاگتا ہے شب تیرہ میں جگنو جاگتا ہے گزرتی ہے کچھ ایسے زندگانی کہ جیسے شب کو سادھو جاگتا ہے میں دریوزہ گر دنیا نہیں ہوں مری ہمت کا بازو جاگتا ہے تری گل رنگ سی یادوں کے باعث مرا احساس خوشبو جاگتا ہے مری خوابیدہ آنکھوں میں ابھی تک تری آنکھوں کا جادو جاگتا ہے شب ...

    مزید پڑھیے

    آپ کو زخم جگر دکھلا کے ہم چپ چاپ ہیں

    آپ کو زخم جگر دکھلا کے ہم چپ چاپ ہیں آپ کی آنکھوں میں آنسو آ کے ہم چپ چاپ ہیں آج دنیا کی نگاہیں آسماں پر ہیں لگی دونوں عالم پر ابھی تک چھا کے ہم چپ چاپ ہیں آپ نے تو اک جہاں میں ہم کو رسوا کر دیا آپ کی محفل میں لیکن آ کے ہم چپ چاپ ہیں لوگ جلتے ہی رہے دل میں لئے بغض و عناد شاعرانہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ بھی کیا دن تھے سکون زندگی دیکھا نہ تھا

    وہ بھی کیا دن تھے سکون زندگی دیکھا نہ تھا دھوپ تھی صحرا تھا ہم تھے دور تک سایہ نہ تھا یا بھری بستی میں کوئی اس کو پڑھ سکتا نہ تھا یا جبینوں پر کوئی حرف شکن لکھا نہ تھا غم کی تاریکی میں گم تھا میرا احساس نظر دل میں تیری یاد کا سورج ابھی نکلا نہ تھا ہر کرن کی دھار گرچہ کند اتنی بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2