جس روز سے قرطاس پہ تحریر ہیں آنکھیں

جس روز سے قرطاس پہ تحریر ہیں آنکھیں
اس روز سے لگتا ہے کہ تصویر ہیں آنکھیں


چہرے ہیں سبھی ایک سے گر شہر وفا میں
پھر تم ہی کہو کس کی یہ تفسیر ہیں آنکھیں


اپنوں نے مجھے لمس کی تبلیغ سے روکا
خود حرف محبت ہی کی تشہیر ہیں آنکھیں


جس دن سے کوئی قریۂ احساس سے گزرا
اس دن سے مرے واسطے زنجیر ہیں آنکھیں


یہ کس کے لئے دل میں تلاطم سا بپا ہے
یہ کس کے لئے آج بھی دلگیر ہیں آنکھیں


یہ کون سے منظر مری آنکھوں میں بسے ہیں
لگتا ہے مجھے وادئ کشمیر ہیں آنکھیں


سجادؔ سے کل اس نے بصد ناز کہا تھا
یہ دیکھ ترے خواب کی تعبیر ہیں آنکھیں