کیا ملا سارے جہاں کی خاک ہم کو چھان کر

کیا ملا سارے جہاں کی خاک ہم کو چھان کر
دم بخود بیٹھے ہیں سناٹے کا خیمہ تان کر


فکر کے تابوت میں سوچوں کی میت لے گیا
گھر سے نکلا تھا وہ جانے جی میں کیا کیا ٹھان کر


کس قدر گمبھیرتا تھی اس کی ہر اک بات میں
لے گیا میرا سکوں وہ میرا گھر پہچان کر


شہر کی گلیوں کے پتھر دشمن جاں کر لئے
بھول کر اک گل بدن کو ہم نے اپنا جان کر


جسم کی دیوار سے سائے لپٹ کر رہ گئے
روشنی اے روشنی مجھ کو نہ یوں حیران کر


میری صورت سے مجھے بھی آشنا کر دے کبھی
اپنے چہرے کا دکھا کے آئنہ احسان کر


کام آئے گا ترے سجاد مرزاؔ بس یہی
جس قدر بھی ہو سکے ہاتھوں سے اپنے دان کر