مری پلکوں پہ آنسو جاگتا ہے
مری پلکوں پہ آنسو جاگتا ہے
شب تیرہ میں جگنو جاگتا ہے
گزرتی ہے کچھ ایسے زندگانی
کہ جیسے شب کو سادھو جاگتا ہے
میں دریوزہ گر دنیا نہیں ہوں
مری ہمت کا بازو جاگتا ہے
تری گل رنگ سی یادوں کے باعث
مرا احساس خوشبو جاگتا ہے
مری خوابیدہ آنکھوں میں ابھی تک
تری آنکھوں کا جادو جاگتا ہے
شب مہتاب ہے اور ساتھ ان کا
عجب جادو لب جو جاگتا ہے
جو ہے سویا ہوا قسمت کا سورج
تو پھر سجادؔ کیوں تو جاگتا ہے