علامت ہے یہ کیسی اس تغیر کا سبب کیا ہے

علامت ہے یہ کیسی اس تغیر کا سبب کیا ہے
ہرے پتوں پہ حرف زرد کیوں موسم نے لکھا ہے


خطوط آگہی پہ جم کے مہکا ہے لہو میرا
صلیب فکر پہ لٹکا ہوا جب مجھ کو دیکھا ہے


کہیں دیکھے نہ جائیں گے جہاں میں ہم سے دیوانے
فریب آرزو ہم نے ہر اک منزل پہ کھایا ہے


صداقت کی صدائیں در سے ٹکرا کے پلٹ آئیں
مکیں شاید ابھی تک دھوپ کی چادر میں لپٹا ہے


خزاں آئی تو جانے صورت حالات کیا ہوگی
ابھی تک تو نگار گل کا چہرہ خوب نکھرا ہے


نظام آسماں بھی ایک سا موسم نہیں رکھتا
کبھی تارے چمکتے ہیں کبھی سورج نکلتا ہے


رواں ہے کون سی منزل کو یہ اٹھکھیلیاں کرتی
ندی کو کیا خبر میرا سمندر کتنا پیاسا ہے