تبسم دلبرانہ ہو گیا ہے
تبسم دلبرانہ ہو گیا ہے
غضب کا مسکرانا ہو گیا ہے
محبت پا گئی ہے اپنی منزل
ترے دل میں ٹھکانا ہو گیا ہے
مجھے اندیشۂ برق تپاں ہے
مکمل آشیانہ ہو گیا ہے
نہ جانے کس طرح اس بے خبر سے
تعلق غائبانہ ہو گیا ہے
مری روداد کس کو یاد ہوگی
مرا قصہ پرانا ہو گیا ہے
انہیں دل کیوں نہ چاہے دیکھنے کو
انہیں دیکھے زمانہ ہو گیا ہے
اسے سجادؔ کیا اب یاد کرنا
جسے چھوڑے زمانہ ہو گیا ہے