Mohammad Ameenuddin

محمد امین الدین

ہم عصر پاکستانی افسانہ نگاروں میں ممتاز۔ عام سماجی موضوعات پر بے پناہ تخلیقی انداز کی کہانیاں لکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں

Prominent among the contemporary fiction writers of Pakistan

محمد امین الدین کی رباعی

    برفیلے لوگ

    یہ ۱۹۸۸ء کا وسط ہے۔ آدم جان نے کار کو اچانک بریک لگایا۔ گاڑی خوفناک چرچراہٹ کے ساتھ ضدی بچے کی طرح رُک گئی۔ سامنے تار کول کی چمکتی ہوئی سڑک پر جا بجا چھوٹے چھوٹے شیشوں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے، جنہیں سفید چمکتی دھوپ نے ہزاروں چھوٹے بڑے ہیروں میں تبدیل کردیا تھا۔ یقیناً یہ کسی کار ...

    مزید پڑھیے

    احساس سے عاری شہر

    مردہ لوگوں سے بھرا ہوا شہر ، یہاں کفن ہی کفن ملتے ہیں۔ حدِ نگاہ کتبے ہی کتبے ہیں۔ ڈھانچے ہی ڈھانچے۔ جیسے شہر نہ ہو ایک بہت بڑا قبرستان ہو۔ ہر قبر ایک دوسرے سے نزدیک مگر ایک دوسرے سے غافل۔ برابر میں کون ہے، نہیں معلوم۔ اوپر نیچے کتنے ہی دفن ہیں، کسی کو کسی کی خبر نہیں۔ بے ہنگم شور۔ ...

    مزید پڑھیے

    گویم مشکل

    مجھے حکم ہوا ہے کہ کہانی کا آغاز میں کروں۔ میں وہی قربان علی ہوں جس نے تمنا اور اس کی بیٹی گلاب کو دہلادینے والی حالت سے نکالا۔ ورنہ قسم بات بنانے والے کی سعید شاہ کے ساتھ جو ہوا، وہ ان کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا۔ سعید شاہ میرا شاگرد، میرے چھوٹے بھائی جیسا ہے۔ اور میں تو ویسے بھی سید ...

    مزید پڑھیے

    نوشتۂ پسِ دیوار و در

    (انسان کی بے اختیاری) جوں ہی فیصل نے کہا ’اے خدا! میں ٹھیک دس بجے خود کشی کرنے والا ہوں، اگر تو مجھے رو ک سکتا ہے تو روک لے، واقعات کا ایک دراز سلسلہ شروع ہوگیا۔ یکایک دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نے پر یقین لہجے میں خود سے کہا۔ ’’دروازہ نہیں کھولوں گا‘‘۔ اورپھر رسی کا پھندا ...

    مزید پڑھیے

    کائنات

    وہ جب سوئے تو تین تھے، مگر جاگے تو انہوں نے تیسرے کو نہ پایا۔ اس کے رنگوں کا تھیلا اور لکڑی کے تراشیدہ برش بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس کی چادر بھی غائب تھی، جسے وہ ہمیشہ اوڑھے رکھتا تھا۔ یہ دونوں اپنی اپنی فطرت میں مختلف تھے۔ جیسے خیر و شر۔ تیسرا جو غائب ہوا، ایک مصور تھا جسے ...

    مزید پڑھیے

    ایک گاؤں کی بیٹی

    فضل دین سارے گاؤں میں اکیلا ہی لوہار اور دھار لگانے والا تھا۔ درمیانے قد کا ادھیڑ عمر فضل دین گاؤں کی کچی سڑک کے کنارے بنائی ہوئی چھپروں والی دوکان میں صبح سے شام تک کام کرتا رہتا۔ رات جب تھک ہار کر گھر آتا تو چارپائی پر ڈھیر ہوجاتا۔ اس کی کوئی سماجی زندگی نہیں تھی۔ دنیا میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    آدم اور خدا

    اس نے پوری طرح آنکھیں نہیں کھولی تھیں، اور نہ ہی اس کے دماغ نے پوری توانائی سے کام شروع کیا تھا، مگر نامانوس اور غیر محسوس طریقے سے اس نے یہ جان لیا کہ وہ کسی نئی جگہ پر قید کردیا گیا ہے۔ ٹیلے سے واپسی پر وہ جان چکاتھا کہ اسے ریاست کا قانون توڑنے والوں میں شامل کردیا گیا ہے۔ اسے ...

    مزید پڑھیے

    الٹی کھوپڑی کا آدمی

    اظہارِ رائے کی آزادی اور فیصلہ کرنے کے اختیار کے بغیر اسے اپنے کاروباری دوست اور دیگر چھ افراد کے ہمراہ ایک کمرا دے دیا گیا جس کی کھڑکی سے سیاہ پتھریلے پہاڑ کو ہاتھ بڑھا کر چھوا جاسکتا تھا۔ کمرے میں فوم کے گدے اور پولیسٹر کی رضائی والے آٹھ درمیانے سائز کے لوہے کے پلنگ تھوڑے ...

    مزید پڑھیے

    بند گلی کا آخری مکان

    پھولوں پر منڈلانے والی خوش رنگ تتلی جانتی ہے کہ بند گلی کے آخری مکان میں دو دن سے سناٹا کیوں چھایا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ نفیس اور متین بوڑھے استاد عبدالمجید کی آواز بھی سنائی نہیں دی، جو وہاں اکیلے رہتے ہیں ،اور جن کے پاس بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آبشار سے گرتے پانی کی بکھری ...

    مزید پڑھیے

    نادیدہ

    صبا نے جوں ہی ہونٹوں کو ہلتے ہوے دیکھا، وہ ڈاکٹر کو بلوانے کے لیے دوڑی۔ ماں کے ہونٹوں کی جنبش سے سمجھی کہ وہ ہوش میں آرہی ہیں۔ وہ ایسا کئی بار سمجھ چکی تھی۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ امی کسی سے باتیں کررہی ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ سیاہ تارکول والی سپرہائی وے سے کئی سو گز دور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5