ایک گاؤں کی بیٹی

فضل دین سارے گاؤں میں اکیلا ہی لوہار اور دھار لگانے والا تھا۔ درمیانے قد کا ادھیڑ عمر فضل دین گاؤں کی کچی سڑک کے کنارے بنائی ہوئی چھپروں والی دوکان میں صبح سے شام تک کام کرتا رہتا۔ رات جب تھک ہار کر گھر آتا تو چارپائی پر ڈھیر ہوجاتا۔ اس کی کوئی سماجی زندگی نہیں تھی۔ دنیا میں کیا ہورہا ہے وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ جانتا بھی تو کیسے سوجھ بوجھ ہی اتنی نہ تھی۔
اس کی کل کائنات اس کی بیوی سکینہ اور جوانی کی حدود میں چوری چھپے داخل ہونے والی فاطمہ تھیں۔ معصوم، بھولی بھالی فاطمہ ہر دل کی گڑیا اور سب کی آنکھ کا تارا تھی۔ گھر میں کسی بھی قسم کا کام کاج نہ تھا کہ فاطمہ مصروف رہے ۔لہذا وہ زیادہ تر وقت محلے پڑوس میں اپنی ہم عمر سہیلیوں میں کھیلتے کودتے گزارتی یا پھر روزانہ صبح گاؤں کی مسجدکے پیش امام مولوی ہدایت اللہ سے سپارہ پڑھنے جاتی۔
بچیاں جب جوان ہونے لگیں توسب چونک جاتے ہیں۔ لیکن فضل دین اور سکینہ کو بالکل احساس ہی نہیں ہوا۔ چودہ برس کی فاطمہ جس قدر خوبصورت تھی اسی قدر سیدھی سادھی بھی تھی۔ گذشتہ چار ماہ سے پانچواں سپارہ پڑھ رہی تھی۔ لیکن وہ ختم ہی نہیں ہونے میں آتا تھا۔
اس وقت بھی وہ گھر میں بیٹھی ہجّے کر کرکے اپنا سبق یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ جیسے جیسے اندھیرا پھیل رہا تھا۔ گاؤں میں سکوت سا چھانے لگا۔ فضل دین چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ کھانستے ہوئے اس نے فاطمہ کو آواز دی۔ ’’اری او فاطمہ میری چارپائی پر بستر کردے میں سوؤں گا‘‘۔ فاطمہ نے سپارہ پند کیا اور اسے طاق میں رکھ دیا۔ اور پھر کمرے میں سے بستر لینے چلی گئی۔
وہ حیران ہورہی تھی کہ آج بابا باہر کیوں سورہا ہے۔ آج تک اس نے بابا کو کبھی باہر سوتے ہوے نہیں دیکھا تھا۔ یہ روز کا معمول تھا۔ اماں اور ابا دونوں کمرے میں سوتے اور وہ خود دالان میں سوتی۔ لیکن اب اچانک بابا نے باہر سونا شروع کردیا۔ پہلے تو وہ سمجھی شاید بابا کی اماں سے لڑائی ہوگئی ہے۔ لیکن ایسا تو کچھ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ آج کل دونوں ہی بہت خوش دکھائی دیتے تھے۔ اور بابا بھی اماں کا بہت خیال رکھنے لگا تھا۔
دن پر لگا کر گزرنے لگے۔ فاطمہ نے اماں میں اب بہت سی تبدیلیاں دیکھنی شروع کردیں ۔وہ پہلے سے زیادہ موٹی ہوتی جارہی تھی اور زیادہ وزنی کام کرتے ہوئے گھبراتی بھی تھی۔ فاطمہ کو کیا معلوم تھا کہ اماں کن مراحل سے گزررہی ہے۔ اسے یہ سب اچانک اس روز پتا چلا جب دوپہر کے وقت اماں کی طبیعت بگڑنے لگی۔ فاطمہ تو گھبرا ہی گئی فوراً پڑوس سے خالہ صغراء کو بلا کر لائی۔ خالہ صغراء نے جب سکینہ کو دیکھا تو وہ فوراً سمجھ گئی۔ اس نے فاطمہ سے کہا ’’جلدی سے جا کر جنت بی بی کو بلا لا‘‘
فاطمہ کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر جنت بی بی کو کیوں بلایا جارہا ہے، حکیم صاحب کو کیوں نہیں بلوارہے ہیں۔ جبکہ جنت بی بی کوئی مریض تھوڑا ہی چیک کرتی ہے۔ بلکہ وہ جس گھر میں جاتی ہے اس گھر میں ایک ننھا منا سا بچہ آجاتا ہے۔ فاطمہ ایک دم چونکی۔ تو کیا اس گھر میں بھی کوئی بچہ آنے والا ہے۔
اس انجانے احساس سے وہ خوش ہوگئی۔ دوڑی دوڑی جنت بی بی کے گھر پہنچی اور جا کر اسے صورت حال بتائی۔ جنت بی بی نے فوراً تیاری کی لیکن بے چاری ضعیف تھی اس لیے ہر کام میں سست تھی۔ ادھر فاطمہ کو بے چینی ہورہی تھی۔ وہ جنت بی بی سے بولی ’’ارے بوا جلدی چلو‘‘ پھر اس نے کہا ’’ بوا اگر کبھی تمہاری حالت میری اماں جیسی ہوگئی تو پھر کیا ہوگا؟‘‘ ۔ بوا نے غصہ سے فاطمہ کی طرف دیکھا اور کہا ’’ارے تیرا ستیا ناس اس عمر میں تو میری یہ حالت کروائے گی۔ بے وقوف لڑکی‘‘۔
فاطمہ واقعی بے وقوف تھی جو پھر بھی نہ سمجھ سکی۔ لیکن اس کا خیال صحیح نکلا کہ جس گھر میں جنت بی بی جاتی ہے وہاں ایک چھوٹا بچہ ضرور آتا ہے۔اس کے گھر میں بھی اس کے لیے ایک چھوٹا سا بھائی آگیا تھا۔ چند روز آرام کے بعد سکینہ نے دوبارہ گھر کا کام کاج سنبھال لیا اور فاطمہ نے اپنا سپارہ پڑھنا شروع کردیا وہ اب بھی پانچواں سپارہ ہی پڑھ رہی تھی۔
ایک صبح فاطمہ جب سو کر اٹھی تو اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ آج سپارہ پڑھنے جائے۔ کیونکہ آج اس کی سہیلی شبو کی بڑی بہن ستارہ کی شادی تھی۔ بارات میرداد کے گاؤں سے آرہی تھی۔ اس کے دل میں ایک خواہش منڈلارہی تھی کہ وہ جا کر ستارہ کو دلہن بنا ہوا دیکھے۔ لیکن اماں کے ڈانٹنے پر اس کو سپارہ پڑھنے جانا ہی پڑا۔
مسجد کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ستارہ کا مکان پڑتا تھا۔ وہ چند لمحے وہاں رک گئی۔ آج ستارہ کا گھر بالکل صاف ستھرا لگ رہا تھا۔ صحن میں جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ اور روزانہ جہاں بھینسیں بندھی ہوا کرتی تھیں،وہ جگہ بالکل صاف ستھری نظر آرہی تھی۔ وہاں دریاں بچھی ہوئی تھیں۔ فاطمہ یہ سب حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ لیکن دل پر جبر کرکے مولوی ہدایت اللہ کے گھر کی طرف چل دی۔
مولوی صاحب مسجد کے برابر والے مکان میں رہتے تھے۔ یہ مکان گاؤں والوں نے امام صاحب کے لیے بنوایا تھا۔ مسجد اور مکان دونوں گاؤں کے سب سے اچھے کاریگر اشوک نے بنائے تھے۔ اگر چہ اشوک ہندو تھا لیکن ایک عرصے سے اس گاؤں میں رہتا تھا۔ اس لیے مسلمانوں کی طرز زندگی سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے مسجد پر اللہ اور محمد لکھا تھا۔ اس کے دل میں ان دونوں ناموں کی بڑی عزت تھی۔
فاطمہ سپارہ ہاتھ میں پکڑے مولوی صاحب کے گھر میں داخل ہوئی۔ مولوی صاحب تخت پر بیٹھے اپنی واسکٹ درست کررہے تھے۔ فاطمہ سلام کرکے دوسرے تخت پر جا بیٹھی۔ اورسپارہ کھول کر اپنا سبق یاد کرنے لگی۔ وہ بہت جلدی جلدی سبق پڑھ رہی تھی۔ مولوی صاحب نے جب ایسا دیکھا تو بول اٹھے ’’کیا بات ہے تجھے آج بہت جلدی ہے‘‘۔ فاطمہ نے گھبرا کر کہا ۔’’نہیں تو‘‘۔ ’’اگر تجھے جلدی جانا ہے تو وجہ بتا‘‘ ۔ مولوی صاحب نے پھر پوچھا۔ فاطمہ نے کہا۔ ’’مولی صاحب آج شبو کی باجی کی شادی ہے‘‘۔۔۔ اچھا ہاں۔ مجھے معلوم ہے ۔ کیونکہ نکاح پڑھانے تو مجھے ہی جانا ہے‘‘۔ مولوی صاحب نے جواب دیا۔
شادی کے نام سے مولوی صاحب کے جسم میں حرارت سی ہوئی۔ انہوں نے اچٹتی ہوئی سی نگاہ فاطمہ پر ڈالی۔ لیکن ان کی نگاہیں تو فاطمہ پر جا کر ٹھہر ہی گئیں۔ وہ حیرت سے فاطمہ کو دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے پہلے کبھی اس طرح نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے تخت سے اٹھے اور دوسرے تخت پر جہاں فاطمہ بیٹھی تھی جا بیٹھے۔ ہوا تیز تیز چل رہی تھی۔ درختوں کے پتے ہل رہے تھے۔ مولوی صاحب کچھ کہنا چاہتے تھے، لیکن کہہ نہیں پارہے تھے۔ وہ مناسب الفاظ تلاش کررہے تھے۔ چند منٹ گم سم بیٹھنے رہنے کے بعد وہ گویا ہوئے’’ فاطمہ تجھے پتا ہے شادی کیوں کرتے ہیں، اچھا چھوڑ یہ بتا کہ لوگ ایک دوسرے کو خوش کس طرح کرتے ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ فاطمہ کے بالکل نزدیک آگئے تھے۔ فاطمہ نے جواب دیا ’’پتا نہیں مولوی صاحب‘‘۔
’’ارے پگلی تجھے میں بتاتا ہوں۔ لیکن ایک وعدہ کر کہ تو کسی کو بتائے گی نہیں‘‘۔
وہ بے وقوف اب بھی نہ سمجھ پائی اور بولی ’’نہیں بتاؤں گی‘‘۔
اچانک ہوا چلنا بند ہوگئی۔ درختوں کے پتے ہلنا بند ہوگئے۔ ایک دم حبس کی سی کیفیت پیدا ہوچلی تھی۔ ایک گلہری درخت سے اتر کر بھاگی۔ درخت پر موجود چڑیوں نے چہکنا بند کردیا کچھ اڑ گئیں اور کچھ نے آنکھیں موند لیں۔
سارے جانور پریشان اورحیران تھے۔ انسان حیوان اور دوسری طرف کہیں شیطان مسکرارہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد دھکنی کی طرح سانسوں کی آواز کمرے سے آنے لگی جیسے کوئی گیلی لکڑیوں کو جلانے کی کوشش کررہا ہو۔
وقت جو کبھی ٹھہرتا نہیں، آخر کار گزر ہی گیا۔ مولوی صاحب نے فاطمہ سے کہا ’’ذرا دیر آرام کر پھر گھر چلی جائیو۔ اور ہاں کسی کو بتانا مت‘‘۔
تھوڑی دیر بعد فاطمہ نے کمرے سے باہر قدم رکھا اور تخت پر رکھے ہوئے سپارے کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ مولوی صاحب اچانک چیخ پڑے۔ ’’نہیں۔۔۔ بیوقوف اسے یہیں چھوڑ جا‘‘ فاطمہ کچھ نہ سمجھ سکی اور مولوی صاحب کی ہدایت پر چپ چاپ خالی ہاتھ، لیکن داغ لیے ہوئے چلی گئی۔
فاطمہ آج بھی وہی تھی۔ ویسی ہی تھی۔ وہی چال ڈھال ، وہی انداز زندگی۔ اس کی کسی ادا میں بھی فر ق نہ آیا تھا۔ وگر نہ جو طوفان اس کی زندگی میں تلاطم برپا کر گیا تھا وہ ایسا تو نہ تھا کہ ساحل پر اس کے اثرات نہ دکھائی دیں۔ ایسے نشان تو مدتوں مٹائے نہیں مٹتے۔ لیکن فاطمہ ایسے گلشن کا پھول تھی جسے اگر چاہو تو کسی کی خوشی کے موقع پر گلے کا ہار بنا ڈالو۔ چاہو تو کسی کے مزار پر جا چڑھاؤ اور اگر چاہو تو ہاتھوں سے مسل دو۔ اور فاطمہ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ اسے بھی ہری بھری ڈالی سے توڑ کر مسل دیا گیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کسی سے کہنا مت۔
ہر صبح سورج طلوع ہوتا رہا۔ ہر صبح دہقان کھیت میں کام کرتے رہے۔ فصل تیار ہونے لگی۔ اور ہر صبح فاطمہ بھی مولوی ہدایت اللہ سے سپارہ پڑھنے جاتی رہی۔ ابھی تک اس کا پانچواں سپارہ ہی چل رہا تھا۔
آہستہ آہستہ بھولی بھالی فاطمہ پر کچھ حقیقتیں منکشف ہونے لگی تھیں۔ وہ یہ بات جاننے لگی تھی کہ آخر بابا نیم کی ٹھنڈی چھاؤں میں کیوں نہیں سوتا۔ پچھلی گلی والی خیر النساء کو جب اس کا ابا ایک ہفتہ کے لیے اپنے گھر لاتا ہے تو وہ صرف دو دن کے بعد ہی میاں کے ساتھ جانے کی ضد کیوں کرنے لگتی ہے۔
ایک دن محلے کے ماسٹر جی کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے اچانک ایک انجانے خیال نے اس کے پاؤں جکڑ لیے۔ اس پر خوف طاری ہونے لگا۔ اس کی حالت بگڑنے لگی۔ وہ سیدھی گھر آگئی۔ ماں نے بہت پوچھا، لیکن کچھ نہ بتایا۔ چارپائی پر لیٹے ہوئے اسے عجیب طرح کے خیالات آرہے تھے۔ وسوسے پیدا ہورہے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر اس کے ساتھ بھی یہی ہوا جو ماسٹر جی کی بیٹی کے ساتھ ہوا تھا تو کیا ہوگا۔ اس نے اس طرح آج تک سوچا ہی نہیں تھا۔
فاطمہ کو رہ رہ کر چار سال پرانا خیال آرہا تھا۔ اس کے بچپن کا اندوہناک واقعہ۔ جب اچانک ایک دن ماسٹر جی کی بیٹی نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کو ہلاک کرلیا تھا۔ سارے گاؤں میں جب یہ خبر پھیلی توسب کے لبوں پر ایک ہی بات تھی۔ کہ وہ جاگیردار کے بیٹے کے بچے کی ماں بننے والی تھی، دونوں ایک دوسرے سے محبت کا دم بھرتے تھے۔ لیکن کہاں جاگیردار اور کہاں ماسٹر جی۔ یہ میل بالکل نہیں بھاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک مجبور باپ کی مجبور بیٹی بہ نسبت محبوب کو گلے لگانے کے موت کو آسانی سے گلے لگاسکتی تھی ۔
فاطمہ کی زندگی میں ابھی ایسا طوفان نہیں آیا تھا جو کہ سارے گاؤں والوں کو بلکہ خاص طور سے اس کے گھر کو اجاڑ کر رکھ دے۔ لیکن اندیشوں اور وسوسوں نے اس کے دماغ کو مفلوج کرکے دکھ دیا تھا۔ اگر یہ باتیں لوگوں کو پتا چل گئیں توکیا ہوگا۔ ان ہی خیالات میں اس نے ساری رات کاٹ دی۔ اسے نیند نہیں آرہی تھی۔
پو پھٹنے سے پہلے جب اسے غنودگی کے عالم میں کچھ احساس نہیں تھا، وہ اٹھی دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ اسے خیال نہیں تھا کہ وہ کیا کررہی ہے، کہاں جارہی ہے۔ کھلی آنکھوں سے اسے صرف گاؤں سے باہر جاتا ہوا رستہ نظر آرہا تھا۔ وہ چلتی جارہی تھی۔ اب تو فقیر کی کٹیا بھی دور رہ گئی تھی۔ حتیٰ کہ چلتے چلتے اس نے کھیتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ گنے کے گھنے اور گنجان کھیت بہت دور رہ گئے تھے۔ سامنے شہر جانے والی سڑک دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن فاطمہ اسے بھی پار کر گئی۔ وہ اس سے بے خبر تھی کہ کہاں جانا ہے اور کیوں جانا ہے۔
دوپہر ہو چلی تھی۔ ہر طرف وہی روز مرہ کی زندگی کا ماحول تھا۔ بوڑھا فقیر اپنی کٹیا سے نکل آیا تھا۔ ماسٹر جی اپنے مکان کے باہر تخت بچھائے گاؤں کے چھوٹے بچوں کو شاید کوئی سبق یاد کروارہے تھے۔ اور تختہ سیاہ پر لکھا تھا’’خدا سے ڈرو‘‘۔
سب کچھ وہی تھا، وہی زندگی، وہی گاؤں کی مدہم اور دھیمی فضا، وہی ماحول۔ سب کچھ وہی تھا۔
اچانک گاؤں کے باہر جانے والے رستے پر کچھ لوگ آتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے اپنے کندھوں پر ایک چارپائی اٹھارکھی تھی۔ اداس چہروں کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ لوگ اب قریب آگئے تھے۔ اجنبی لوگوں میں سے ایک شخص نے فضل دین کے مکان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا۔ اب وہ تمام لوگ فضل دین کے مکان کی طرف جارہے تھے۔ قریب جا کر انہوں نے چارپائی کو نیچے رکھ دیا۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر فضل دین کے دروازے پر دستک دی۔ چند لمحوں بعد فضل دین باہر آیا۔ اس نے اجنبی لوگوں کو دیکھا۔ ایک ادھیڑ عمر شخص آگے بڑھا۔ چند لمحے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ملیں۔ ادھیڑ عمر آدمی نے آگے بڑھ کر چارپائی کے اوپر سے چادر ہٹادی۔ ’’فاطمہ‘‘ ۔۔۔فضل دین چیخا۔ قریب گیا، لیکن وہاں فاطمہ نہ تھی ایک لاش تھی۔ دو ٹکڑے ہوئی لاش۔ ریل گاڑی نے اس کے جسم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ فضل دین دوڑتا ہوا اندر گیا، اور سکینہ کو کھینچ کر باہر لایا۔ سکینہ نے جب اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھا تو بے ہوش ہوگئی۔
گاؤں والے اکھٹے ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟
ادھیڑ عمر اجنبی صرف یہ بتا کر چلے گئے کہ انہوں نے اسے ریل کی پٹری پر پڑے ہوئے دیکھا تھا۔ رحیم میرا بیٹا اسے پہچانتا تھا اس لیے ہم اسے یہاں لے آئے۔
فضل دین دھاڑیں مارمار کر رونے لگا۔ محلے کی عورتوں نے سکینہ کو سنبھالا اور اندر لے گئیں۔ ہر شخص اداس تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کیسے ہوا۔
سورج اپنی تمام تر تپش کے ساتھ سروں پر منڈلا رہا تھا۔ اچانک فضامیں مولوی ہدایت اللہ کی آواز گونجنے لگی۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ اشہدان لا الہ الا اللہ۔
اذان لوگوں کو بھلائی کی طرف بلارہی تھی۔


(۱۹۸۲ء)