بند گلی کا آخری مکان

پھولوں پر منڈلانے والی خوش رنگ تتلی جانتی ہے کہ بند گلی کے آخری مکان میں دو دن سے سناٹا کیوں چھایا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ نفیس اور متین بوڑھے استاد عبدالمجید کی آواز بھی سنائی نہیں دی، جو وہاں اکیلے رہتے ہیں ،اور جن کے پاس بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آبشار سے گرتے پانی کی بکھری آوازوں میں درختوں پر جھولتے پتوں کی مدہم سرسراہٹ کو جذب کرنے۔۔۔ بادلوں کی باوقار گرج کو سمندر کی بے قرار لہروں کی تڑپ سے ہم آہنگ ہونے ۔۔۔اور کبھی کبھی ٹوٹتے شیشے کی چھنک کو ٹکراتے کنکر کی کھنک سے جدا کرنے کا ہنر سیکھنے آیا کرتے ہیں۔ مگر پچھلے دو دنوں میں بے آواز سناٹے کے سوا وہا ں کوئی نہیں آیا۔
استاد عبدالمجید نے بہ ظاہر اس بے آواز مگر درحقیقت چیختی چنگھاڑتی تنہائی کا ایک ایک لمحہ کیسے گزارا، یہ تو بس وہ ہی جانتے تھے ،یا وہ خوش رنگ تتلی جس کے پروں کی دھیمی دھیمی سر سر کو وہ اپنی تانوں میں بارہا سمونے کی جستجو کرتے، اورجسے صرف وہ خود ہی سن پاتے۔ مگر جب بھی وہ اسے سنتے تو ان کے پورے وجود میں عجب سی سرشاری اترآتی، اور وہ اپنے رب کی قدرت کو محسوس کرکے نہال ہوجاتے۔
استاد عبدالمجید کو یہ ہنر خوب آتا ہے۔ جب کبھی وہ ستار بجاتے ہوے سروں کو انتہائی عروج پر لے جاتے تو متحرک انگلیوں کا رقص منتہائے کمال کو پہنچ جاتا ،اور اکثر یوں دکھائی دیتا جیسے وہ اپنی نازک انگلیوں کو زخمی کرلیں گے۔ مگر پھر بند آنکھوں کے ساتھ اپنی گردن کو ترچھے زاویے سے جھکاتے ہوے ان کے بوڑھے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ عود آتی ،اور ان کی انگلیاں یکایک اپنی رفتار کم کرتے ہوے اتنی مدہم ہوجاتیں کہ آوازیں گم ہوتی ہوئی محسوس ہوتیں۔ محض انگلیوں کی جنبش سے اندازہ ہوتا کہ استاد ستار تو بجارہے ہیں مگر آوازیں کہیں پاتال میں یوں اتر گئی ہیں جیسے کوئی ہم سفر اپنے ساتھی کو کچھ بتائے بنا اکیلا چھوڑ جائے۔ استاد عبدالمجید اپنے اس ہنر میں کمال کے درجے پر پہنچے ہوے تھے۔ انہوں نے یہ ہنر خوش رنگ تتلی کو دیکھ کر سیکھا تھا، جس کے پروں کی حرکت دکھائی تو دیتی ہے ،مگر اس سے پیدا ہونے والی آواز انسانی سماعتوں کا حصہ نہیں بن پاتی۔
گذشتہ دو مربوط دن، پہلے گھنٹوں اور پھر بعد میں لمحوں میں ٹوٹ کر کچھ ایسے بکھرے جیسے برساتی پانی اوڑھے رستے پر کوئی ہم درد فاصلوں سے اینٹیں رکھ دے، مگر جب کوئی مسافر کسی ایک اینٹ پر قدم رکھے تو دوسری پررکھنے سے پہلے اس کا توازن ہر بار بگڑنے لگتاہے۔ ریزہ ریزہ ہوتے لمحوں میں اپنے دل کی دھڑکن، اپنی ناہموار سانسوں اور اداس پڑے ہوے ستار کی کھوئی ہوئی آوازوں کی محفل سجائے استاد عبدالمجید نے آرام کرسی پر بیٹھے ہوے گردن کو تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور بیرونی دروازے کی سمت دیکھا، جو گذشتہ دو روز سے بند تھا، اور پھر دیر سے ایک ہی جگہ ٹہری کرسی کو دھیرے دھیرے آگے پیچھے جنبش دیتے ہوے نظریں چھت کی طرف گاڑ دیں۔ چھت بھی کرسی کا ساتھ دینے میں مصروف ہوگئی۔ دو دن اور ایک رات کا زیادہ وقت انہوں نے کرسی پر بیٹھے ہی گزارا تھا۔ وہ اچٹتی نیند کا ہلکا سا جھونکا لیتے اور جاگ جاتے۔ جب کرسی ٹھہری ہوئی ہوتی تو لگتا کہ برسوں سے ان کی زندگی شاید اسی طرح جامد ہو کر رہ گئی ہے۔ آنکھوں میں خلا آسمان کی وسعتوں کی طرح دور تک پھیل جاتا۔ انہیں اپنا وجود ساکت پانی کے اوپر کاغذ کی طرح ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا، اور جب بے دھیانی میں وہ اپنی بوڑھی کمر کی مدد سے کرسی کو پیچھے کی طرف معمولی سے دباؤ سے جنبش دیتے تو ساکت پانی میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوجاتا ،اور زندگی کا سادہ ورق پانی کے ساتھ ہلکورے لیتا ہوا محسوس ہوتا۔
استاد عبدالمجید جانتے تھے کہ زندگی میں سب سے اہم اور قیمتی شے ان کی سادگی ہے۔ انہیں یہ احساس کسی اور نے نہیں دلایا ،بلکہ یہ ان کا اپنا ادراک تھا جو لاشعور میں پہلے سے موجود فطری اور شعوری کوششوں کی وجہ سے تھا۔ وہ ایسے ہی رہنا چاہتے تھے۔انہیں لگتا بھی تھا کہ وہ اس آخری پہر کو چار سو پھیلے شور کے باوجود دھیمے اور خوشبو کی بے آواز موجودگی کی طرح دنیا کی نامانوس موسیقی بھری لہروں میں کوئی ارتعاش پیدا کیے بغیر اپنی زندگی خاموشی سے گزار کر چلے جائیں گے۔ مگردو دن پہلے ان کے دروازے پر کچھ شناسا لوگ آکر بولے کہ خاں صاحب! ان شیطانی آوازوں کو بند کریں ہم جہنم میں جانا نہیں چاہتے، اور خاں صاحب کا جواب سنے بغیر چلے گئے۔ تب انہوں نے گم سم حالت میں پودوں کی باڑ پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور بوجھل قدموں سے اندر آکر دروازہ بند کرلیا۔ اب اس دروازے کو بند ہوے ایک سناٹے سے بھری بے خواب آنکھوں والی طویل سیاہ رات اور لق و دق چلچلاتی دھوپ میں لسڑے ہوے دو بے انت صحرائی دن ہوچلے تھے۔
وہ اپنے شاگردوں کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے ہونہار شاگرد کسی ذاتی مصروفیت کے سبب نہیں آئے، یا انہیں بند گلی کے اس آخری مکان کی طرف آنے ہی نہیں دیا گیا۔
اس دوران استاد عبدالمجید کے کانوں میں بار بار اپنے استاد محترم کے وہ جملے گونج رہے تھے جو انہوں نے برسوں پہلے کسی سے گفتگو کرتے ہوے کہے تھے۔
’حضرت مقدس لفظوں کو آواز کے زیروبم ، سر کے اتار چڑھاؤ اور صوتیافی آہنگ میں ڈھالنا ، خوش الحانی، اور اگر مجھ سا ناہنجار کسی زمینی تخلیق کار کے مصرعوں کو آواز کے زیر و بم ، سر کے اتار چڑھاؤ اور صوتیاتی آہنگ کی آمیزش سے پیش کرے تو جہنم واصل ہونے کا اشارہ دیا جاتا ہے‘۔
معترض ہستی چونکی اور وضاحت چاہی تو استاد محترم نے ہاتھ جوڑتے ہوے کہا تھا۔
’جس طرز میں آپ مقدس لفظوں کو پڑھتے ہیں اسی طرز میں ترجمہ پڑھیے اور پھر مجھے بتایے کہ مجھ میں اور آپ میں کیا فرق ہے‘۔
استاد عبدالمجید کو ایسی صورت حال کا سامنا نہیں تھا۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے استاد سے گائیکی نہیں صرف ستار بجانا سیکھا تھا، اور آج برسوں کی ریاضت کے بعد ملک کے ماہر ستار نواز قرار دیئے جاتے تھے ۔ ایک زمانہ ان کے فن کا معترف تھا۔ برسوں سے استاد کے درجے پر فائز تھے۔ ان کے سینکڑوں شاگرد پورے ملک میں پھیلے ہوے تھے۔ بدلتے ہوے سماجی اور معاشرتی کلچر کے ان گنت نشیب و فراز نے تہذیبی رویہ خاصا تبدیل کردیا تھا، مگر کچھ دیوانے ان کے دروازے پر شوقِ علم کی آرزو لیے اب بھی چلے آتے تھے۔ تاہم گذشتہ دو دنوں سے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے انہیں کہیں دور راستے ہی سے پلٹ جانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ یہ سوچتے ہوے استاد عبدالمجید کی طبیعت میں بے قراری بڑھنے لگی۔ ان کی آنکھوں میں لڑکے لڑکیوں کے چہرے گھومنے لگے۔ آسن درست کرتے ہوے ۔۔۔ ستار سنبھالتے ہوے۔۔۔ انگلیوں کو تانوں پر صحیح طرح جماتے ہوے ۔۔۔ سُر چھیڑتے ہوے۔۔۔ انگلیوں کے پوروں کو تاروں سے اٹھکیلیاں کرتے ہوے اور ہر ہر تان لگانے پر طلبہ نواز مبارک علی کی سنگت بناتے ہوے۔۔۔
طبلے کا خیال آتے ہی ان کی آنکھوں میں مبارک علی کا چہرہ اُبھر آیا۔ اسے بھی شاید روک دیا گیا تھا۔ استاد محفلوں میں بہت کم جایا کرتے تھے، مگر جب کبھی انہیں اچھی محفلوں میں بلوایا جاتا تو مبارک علی ضرور ساتھ جایا کرتا۔ استاد اکثر اسے یہی کہا کرتے کہ تجھ سے میرا ساتھ اب مرکر ہی چھوٹے گا۔ مگر گذشتہ دو دنوں نے اس خیال کی تردید کردی تھی۔ مبارک علی کا خیال آتے ہی ان کی گردن دائیں طرف جھک گئی۔ برآمدے کی دھندلی فضا روشن دان میں لگے شیشوں کی مدد سے کمرے کو بھی دھندلا دھندلا سا روشن کررہی تھی۔ اس ملگجی روشنی میں ان کے قیمتی اور خوبصورت ستار سے ذرا فاصلے پر طبلے متحرک انولی ں کے منتظر تھے۔ استاد عبدالمجید نے محسوس کیا کہ طبلوں پر گرد کی باریک تہہ جم گئی ہے۔ تب انہیں خیال آیا کہ ان کے ستار پر بھی یقیناًاس گرد کا کچھ حصہ ضرور اثر انداز ہورہا ہوگا۔
انہیں یاد آیاکہ دو روز پہلے شاگردوں اور مبارک علی کے آنے سے پہلے انہوں نے معمول کے مطابق اپنے ستار اور مبارک علی کے طبلوں پر چڑھے غلاف کو اتار کر رکھ دیا تھا۔ مگر جب محلے والوں سے مل کر لرزتے قدموں سے لوٹے تو نازک اور نفیس آلات اور اپنے وجود کو سنبھالنا ہی بھول گئے۔ اب انہوں نے سوچا مجھے ان آلات پر چادر ڈال دینا چاہیے، مگر بے قدری کے احساس نے انہیں ایسا کرنے ہی نہیں دیا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ان کے فن یا اس سے جڑی ہوئی کسی چیز پر وقت حالات یا مایوسی کی گرد کا ہلکا سا غبار بھی پڑا ہو۔ چیزیں ہی نہیں بلکہ انہوں نے مسلسل ریاضت سے اپنے فن کو بھی چمکائے رکھا تھا۔ ہمیشہ کچھ نیا سوچتے رہتے۔ طبیعت کا یہی اُجلا پن ان کی پوری زندگی پر پھیلا ہوا تھا۔ اکیلے رہنے کے باوجود گھر ہمیشہ چمکتا ہوا دکھائی دیتا۔ یوں تو وہ خود ہی اپنی چیزوں کی دیکھ بھال کرتے تھے، مگر کبھی کبھی طبلہ نواز مبارک علی یا کوئی شاگرد ان کا ہاتھ بٹادیا کرتی۔ وہ بخوشی ان کی خدمت کو قبول کرلیا کرتے۔
مگر سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ گیا تھا۔ پرانے کھڑکی دروازے اور برآمدے کی سمت کھلنے والے روشن دان مہین گرد کو روکنے سے قاصر تھے۔ ستار اور طلبہ ہی کیا، گھر کی ہر شے استاد عبدالمجید کے ہر وقت دمکتے چمکتے چہرے پر پھیلی اداسی کی طرح گرد لپیٹے اداس پڑی ہوئی تھی۔ ان کی سادہ زندگی کا سب سے قیمتی حصہ نفاست اور لطافت تھا، جس کا ایک سنگین اور بھیانک الزام نے خون کردیا تھا۔
ان شیطانی آوازوں کو بند کریں۔۔۔
یہ سوچتے ہی استاد عبدالمجید کی بے کلی اور بڑھ گئی۔ وہ بے قراری میں سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ یکایک ان کا چہرہ اضطراب اور غصے کی شدت سے تپنے لگا۔ بوڑھے چہرے پر زندگی کے بے رحم تھپیڑوں نے جتنی جھریاں ڈالی تھیں، سب لرزنے لگیں۔ لمحہ بھر کو ان کا جی چاہا کہ فوراًجائیں ، ستار سنبھالیں اور اونچے سروں میں تاروں کو چھیڑیں اور ا تنا بجائیں کہ سناٹا چیخ اٹھے، مگر وہ جانتے تھے کہ انگلیاں لہولہان کرنے کے باوجود ستار سے ایسا کام نہیں لیا جاسکتا۔ وہ اٹھ کھڑے ہوے۔ کچھ بڑبڑاتے ہوے لمبے قدموں سے دروازے کی سمت بڑھے۔ ہاتھ بڑھا کر اوپر لگی چٹخنی کو گراتے ہوے دونوں پٹ کھول دیئے۔ کمرا روشنی سے بھر گیا۔ لمحہ بھر کو استاد عبدالمجید کی آنکھیں چندیا گئیں۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو ملتے ہوے برآمدے اور اس سے ملحق صحن کی طرف دیکھا۔
وہاں سناٹا تھا۔
اکثر ٹھنڈی اور تیز ہوا بند گلی کے اس آخری مکان کی دیواروں ، دروازوں، کھڑکی ، روشن دانوں سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس وقت بھی برآمدے میں چلتی ہوئی تیز ہوا جوں ہی ان کی لرزتی جھریوں سے ٹکرائی، اچانک ابھر آنے والا اضطراب سرد ہوتا چلا گیا۔ وہ دھیرے دھیرے پہلے جیسی حالت میں آتے چلے گئے۔ جس شدت اور بے قراری سے لمبے لمبے قدم اُٹھاتے دروازے تک آئے تھے، وہ ختم ہوچکی تھی۔ بے دھیانی میں انہیں یہ یاد ہی نہیں رہا کہ محلے والے انہیں دو روز پہلے حکم سنا کر جابھی چکے ہیں۔ وہ محلے والوں سے کچھ کہنا چاہتے تھے۔ شاید وہی جو ان کے استاد نے پہلے کسی سے کہا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ان کے ذہن میں اپنے نئے عہد سے کوئی بات یاد آئی ہو، کیوں کہ ان کا اپنا عہد خود بھی بے شمار حوالوں، مثالوں سے اٹا پڑا تھا۔ مگر کچھ نہ کہہ سکنے کی شکست خوردگی کا احساس ان کے قدموں میں بوجھل پن کی صورت درآیا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے برآمدہ اور اس سے آگے صحن کھلا ہوا تھا، جہاں دیوار کے سہارے چاروں طرف گلاب، موتیا، چنبیلی، اور رات کی رانی کے پودے اُگے ہوے تھے۔ جوں ہی نگاہ پودوں پر پڑی تو انہیں یاد آیا کہ دو دن سے پودوں کو پانی بھی نہیں دیا گیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ زندگی اور پھولوں کی لطافت میں بہت ساری قدریں مشترک ہیں۔ دونوں کو آب یاری کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ سوچتے ہوے بے ساختہ استاد عبدالمجید کے لبوں پر تبسم ابھر آیا اور وہ صحن میں لگے پانی کے نل کی طرف بڑھ گئے۔ تھوڑی دیر میں استاد جھرنے سے پودوں کو پانی دے رہے تھے۔ پانی کی مہین مہین بوندوں نے نہ صرف پودوں کی بے رونقی کو دور کیا، بلکہ پھولوں کی شگفتگی نے استاد عبدالمجید کے چہرے کو بھی تازہ کردیا۔ انہوں نے آنکھیں بند کرکے گردن آسمان کی طرف اٹھاتے ہوے التجا بھری سانسوں سے دل میں کسی کو یاد کیا۔ ان کی بند آنکھوں میں پوری کائنات اترنے لگی ۔انہوں نے آبشار سے گرتے پانی کی بکھری آوازوں اور درختوں پر جھولتے پتو ں کی دھیمی سرسراہٹ کو مختلف آہنگ عطا کرنے، بادلوں کی باوقار گرج اور سمندر کی بے قرار لہروں کی تڑپ کو جدا جدا جذبات بخشنے، اور ٹوٹتے شیشے کی چھنک اور ٹکراتے کنکر کی کھنک کو الگ الگ آوازیں عنایت کرنے والے رب سے محلے والوں کے حق میں دعا کی۔
اس لمحے انہیں محسوس ہوا کہ کوئی ان کے بہت نزدیک موجود ہے۔ استاد عبدالمجید نے آنکھیں کھول دیں۔ پھولوں پر منڈلانے والی خوش رنگ تتلی ان سے کچھ کہہ رہی تھی، جسے سن کر ستار نواز استاد عبدالمجید مسکرانے لگے۔