گویم مشکل

مجھے حکم ہوا ہے کہ کہانی کا آغاز میں کروں۔
میں وہی قربان علی ہوں جس نے تمنا اور اس کی بیٹی گلاب کو دہلادینے والی حالت سے نکالا۔ ورنہ قسم بات بنانے والے کی سعید شاہ کے ساتھ جو ہوا، وہ ان کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا۔
سعید شاہ میرا شاگرد، میرے چھوٹے بھائی جیسا ہے۔ اور میں تو ویسے بھی سید لوگوں کی دل و جان سے عزت کرتا ہوں۔ لوگ تو یوں ہی باتیں بناتے ہیں۔۔۔ بڑا ہی آسان کام ہے باتیں بنانا۔ وہ میرے ٹرک پر کلینر تھا۔ ہم زلزلے سے ایک دن پہلے ایبٹ آباد پہنچے۔ اللہ توبہ! زلزلے سے کیا حالت ہوئی تھی۔ ٹرک کے نیچے کتے بلی بھی ایسے نہیں کچلے جاتے جیسے انسان کچلے گئے۔ لیکن ایک دن پہلے سب ٹھیک تھا، جیسے گھوٹکی اسٹیشن پر کراچی او رکوئٹہ ایکسپریس ٹکرانے سے پہلے میں نے دیکھا تھا۔
شانت۔۔۔
جب سائیں مٹھا نے خیر خیریت پوچھی تو سب سُنائی دیا، لیکن جو سعید نے کہا وہ ٹرینوں کے دھماکے میں گم ہوگیا ۔
ایبٹ آباد میں اس آخری خیریت والے دن ہم نے کمپنی کے دفترپر ٹرک سے مال اتروایا۔ دوپہر تک فارغ ہوگئے۔ جب منیجر نے بتایا کہ واپسی کے لیے مال لوڈ کرنے میں دو دن لگیں گے تو سعید کے جسم میں پھلجھڑیاں بھر گئیں۔ وہ بولا۔
’’استاد! دو دن کا چانس ہے۔ گاؤں کا چکر لگالو‘‘۔
’’تجھے جانا ہے؟‘‘
’’تم جاؤ گے تو میں بھی چلا جاؤں گا‘‘۔
’’تو جانا چاہے تو چلا جا۔ میں نہیں جاؤں گا‘‘۔
پچھلی بار جب گاؤں گیا تو بے بے نے شمسہ کی شادی کے لیے پیسے مانگے تھے۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اب کے آؤں گا تو کچھ دوں گا۔ پیسوں کا کوئی بندوبست نہیں ہوا، لہذا گاؤں جانا ابھی ممکن نہیں تھا۔
بے بے میری ماں اور شمسہ میری بیٹی ہے۔ کئی برس پہلے بیماری کی حالت میں بیوی چل بسی۔ اس کی موت کے بعد گھر سے میرا رشتہ ہوٹل اور مسافر جتنا بھی نہیں رہا۔ بے بے نے بہت چاہا کہ دوسری شادی کرلوں، مگر اس جھنجھٹ میں کون پڑے۔ ایک لمبے روٹ کے ڈرائیور کے راستے میں اتنے پڑاؤ آتے ہیں کہ تھکاوٹ اور جسم کی اینٹھن دور کرنے کے لیے گُھورے پر پڑی ہوئی چُسے ہوئے آم جیسی رجو سے لے کر اڈے والی لال مشہدی سیب کی طرح رس بھری تاری تک بیسیوں ٹھکانے ہیں، اور کبھی کبھی تو ریٹ بھی اتنا سستا ہوتا ہے کہ ایک بھری ہوئی سگریٹ پر ہی سودا پٹ جاتا ہے۔
سعید شاہ اکثر کہتا کہ استاد حیرت ہے، تمہاری نظر شکار کو پہچان کیسے لیتی ہے؟ میں زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے ہارن پر ہاتھ مارتا ہوں تو ٹرک بھی میر ی ہنسی میں شامل ہوجاتا ہے۔ میں کہتا۔
’’اوئے پگلے تجربہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جس دن تو اس سیٹ پر بیٹھے گا تو گاڑی کا ہینڈل تیرے تجربے کی لاٹھی بن جائے گا۔ پھر ہائی وے کا گھوراندھیرا اور نشیلی نیند کا میٹھاجھونکا کچھ نہیں، تو بھلا یہ چھوٹے موٹے کھیل کیا چیز ہیں۔ سعیدے! جب گاڑی کراچی سے پشاور تک چلتی ہے تو ڈرائیور راستہ ہی نہیں اور بھی بہت کچھ جاننے لگتا ہے ۔ کہاں موڑ آئے گا۔۔۔ کہاں سڑک بن رہی ہے۔۔۔ کہاں ڈیزل ملے گا۔۔۔ کہاں سے پنکچر بنے گا۔۔۔ کب اندھیرا چھائے گا۔۔۔ کب ہوٹل آئے گا۔۔۔ کون سے شہر کا کون سا رستہ ہے۔۔۔ اور کون سا ڈھابا سستا ہے۔۔۔ کون سی لڑکی راضی ہے ۔۔۔اور کس کی روٹی تاجی (تازہ ) ہے‘‘۔
سعید شاہ جس کی شادی کو ابھی تین سال سے کچھ اوپر ہوئے تھے اپنی جوان بیوی اور بیٹی سے ملنے چلا گیا۔ قسم بات بنانے والے کی، اڈے پر ویگن میں سوار کراتے ہوئے مجھے ذرا بھی اندیشہ نہیں تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ جانتا تو وہ بھی نہیں تھا کہ مانسہرہ کے پیچھے پہاڑوں کے درمیان آباد چھوٹے سے گاؤں کو بے نشان ہونے میں صرف ایک دن باقی ہے۔


اب کہانی مجھ سے سُنیئے۔
میرا تعارف اتنا ہی کافی ہے کہ میں سعید شاہ ہوں۔ استاد قربان علی نے میرے بارے میں جو کچھ بتایا وہ سب سچ ہے، لیکن اس نے اپنے بارے میں سارا سچ نہیں بولا۔ میں استاد کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ میں اس کے اچھے بُرے کارازدار اور شریکِ کار رہا ہوں۔ میں اس کے ساتھ تب سے ہوں جب استانی جی زندہ تھیں۔ شاید چھ یا سات سال پہلے۔ وہ بہت اچھی عورت تھیں۔ صابر اور نیک۔۔۔ اور استاد۔۔۔ الٹ۔۔۔ بالکل الٹ۔ ایک نمبر کا نشئی، لڑکی باز اور پیسے کے لیے کچھ بھی کر جانے والا۔ مگر میں اس کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ اور یہ جو استاد نے کہا کہ وہ مجھے چھوٹا بھائی سمجھتا ہے اور میرے سید ہونے کا احترام کرتا ہے، سراسر جھوٹ ہے۔ بھلا کوئی چھوٹے بھائی کے ساتھ وہ حرکتیں کرتا ہے جو وہ میرے ساتھ کئی بار کرچکا ہے۔ اس کے لیے تو ٹرک ڈرائیور کی روزی رزق والی پاک گدی ، اللہ اور رسول کے تغروں سے سجی ہوئی ٹرک کی چھت، ڈھابے کا پچھواڑا یا رنڈی کی کھاٹ۔۔۔ سب برابر ہیں۔ میں بھی کیا کرتا۔ بھاگ کر کہیں جاتا تو کسی اور کے ہتھے چڑھ جاتا۔ اس لائن میں ایک سے بڑھ کر ایک قربان علی پڑا ہوا ہے۔
ٹرک چلانا مجھے استاد نے سکھایا۔ اس کا موڈ آرام کرنے کا ہو اور راستہ بھی سیدھا سچا ہو تو وہ مجھ سے سو پچاس کلومیٹر گاڑی چلواتا رہتا ہے۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ عید کے بعد وہ حاجی صاحب سے بات کرے گا کہ فی الحال چھوٹے روٹ کا ٹرک مجھے دے دیں، جیسے پشاور سے لاہور یا پنڈی سے فیصل آباد۔
میں ان ہی خیالوں میں گم دوپہر تک گاؤں پہنچ گیا۔ مجھے دیکھتے ہی تمنا کے چہرے پر گُلاب کھل اٹھے اور گُلاب تو تھی ہی گُلاب، اس نے عجیب تمنا سے میری طرف ہاتھ بڑھادیئے۔
ویگن میں سوار ہونے سے پہلے لاری اڈے پر میں نے تمنا کے لیے ایک زنانہ چپلوں کی جوڑی خریدی تھی۔ میں نے تھیلی تمنا کی طرف بڑھادی۔ وہ خوش ہوگئی۔ اس نے اسی وقت انہیں اپنے نازک پیروں میں ڈال لیا۔ تھوڑی دیر میں بابا چلا آیا۔ وہ مجھے گھر آتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ آتے ہی اماں سے بولا۔
’’اسے روٹی شوٹی کھلاؤ۔ اس کا روزہ ووزہ تو ہوگا نہیں‘‘۔
’’میرا روزہ ہے‘‘۔
اس سے پہلے کہ بابا کی جھڑکیاں سُنوں، میں نے فوراً جھوٹ بول دیا۔
’’اچھا؟‘‘
بابا نے حیرت سے کہا۔ میں جانتا تھا کہ بابا کے سامنے جھوٹ زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتا، مگر پھر بھی بول دیا۔ شاید یہ استاد کی صحبت کا اثر تھا۔ بابا نے کہا۔
’’اسلام آباد سے کوہ مری والے روڈ کو چوڑا کرنے کے لیے پہاڑوں کی کٹائی کا کام میں روزے کی حالت میں کیا کرتا تھا، اور تو کلینری نہیں کرسکتا؟‘‘
میں نے خاموشی سے سرجھکالیا۔ کیسے کہتا کہ میں تو روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔لیکن استاد قربان علی کے ساتھ رہتے ہوئے؟۔۔۔ناممکن۔۔۔ یہ کیا کم ہے کہ اس کے ساتھ رہتے ہوئے کئی بُری عادتوں سے بچا ہوا ہوں۔
بابا چلا گیا۔ میں نے کھانا کھایا اور وہیں تمنا کی تمنا میں رات کی تنہائی کی آرزو کی اور سو گیا۔ جب بیدار ہوا تو اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں کمرے میں چلا آیا۔ وہ جاگ رہی تھی۔
رات کیسے گزری، پتا ہی نہیں چلا۔ جب صحن سے بابا کے کھنکھارنے کی آواز آئی تو تمنا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔میں نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور بولا۔
’’رُک نا! سویرے تو میں چلا جاؤں گا‘‘۔
’’مجھے غسل کرنا ہے۔ اس حالت میں اماں اور بابا کے لیے نہ میں سحری بناسکتی ہوں نہ نماز پڑھ سکتی ہوں۔ وہ سمجھ جائیں گے‘‘۔
’’جب میں آیا ہوں تو وہ ویسے بھی سمجھ جائیں گے‘‘۔
’’تمہاری بات الگ ہے۔ تم تو بابا کے سامنے جھوٹ بھی بول دیتے ہو۔ میں ایسا نہیں کرسکتی‘‘۔
’’دیکھ میں ناراض ہوجاؤں گا؟‘‘
’’میں منالوگی‘‘۔
اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ میں نے اس کا ہاتھ دھیرے سے چھوڑ دیا۔ کروٹ بدل کر آنکھیں بند کیں اور سو گیا۔ پھر میں نے نیم بیداری کی سی حالت میں دیکھا کہ میرے چاروں طرف پتھروں کا ڈھیر ہے اور میں بھاری ملبے تلے دبا ہوا ہوں۔ دور اونچائی پر آسمان دکھائی دے رہا ہے اور ساتھ ہی بلندیوں کو چھوتا ہوا استاد قربان علی۔۔۔ پھر یکایک مٹی اور پتھر میری طرف بڑھنے لگے۔ درد کی لہروں نے مجھے چُھوا تو چیخ نکل گئی۔ اچانک تاریکی پھیل گئی اور میرا دم گھٹنے لگا۔


اب کہانی مجھ سے سُنیئے۔
میں تمنا ہوں۔ یہ بات تو قربان علی بتا چکا ہے کہ میں بیوہ ہوچکی ہوں۔ مگر درد کے اس قصے میں مجھے کانٹوں بھری راہ پر ڈال دینے میں زلزلے کا اتنا بڑا کردار نہیں جتنا قربان علی کا ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ یہاں قربان علی کہاں سے آگیا؟ کمرے میں اس وقت سعید سورہا ہے اور پلنگ کے دوسری طرف ہماری بیٹی گُلاب۔ صحن میں بابا وضو بنا رہا ہے، اماں چولہا جلانے کی جستجو کررہی ہے، اور کچی پکی دیواروں کے بیچ لٹکے ہوئے پردے کی اوٹ میں، بدن پر پانی بہاتی ہوئی میں، جسے سعید کا دیا ہوا معمولی سی چپل کا تحفہ بھی خوش کردیا کرتا۔ مگر واقعہ کچھ اس طرح ہوا تھا۔
سحری کرکے بابا نماز پڑھنے چلا گیا اور پلٹا ہی نہیں۔۔۔ اماں کمرے میں جاکر سو گئی اور جاگی ہی نہیں۔۔۔ میں گھر کی جھاڑ پونچھ ، صحن کی صفائی ، بکریوں کو چارا ڈالنے اور چھوٹے موٹے کاموں میں جُت گئی۔ دن کب نکلا کچھ پتا نہ چلا۔ گُلاب کے رونے کی آواز پر چونکی اور اسے اٹھالائی۔ سعید تب بھی سورہا تھا۔ کیا خبر تھی کہ کچھ دیر بعد یہ گھر۔۔۔ بلکہ پورا گاؤں ملبے کا ڈھیر بننے والا ہے، اور سعید۔۔۔
مگر سب کچھ تھوڑی دیر بعد ہی اچانک شروع ہوگیا۔ یاد نہیں زمین پہلے لرزی یا کمروں کی دیواریں، پہاڑ یا آسمان۔ ہوسکتا ہے سب نے ایک ساتھ لرزنا شروع کردیا ہو، یا زمین اور آسمان آپس میں ٹکراگئے ہوں، اور درمیان میں آجانے والی ہر شے چکی کے پاٹوں میں اناج کی طرح پس گئی ہوبس مگر کچھ ایسا ہوا جسے بیان کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں۔ اتنا یاد ہے کہ یکایک اونچی سی قبر میرے سامنے بن گئی۔ جس میں دو انسان دفن ہوگئے۔ سعید اور اماں۔۔۔ اس وقت تک میں نہیں جانتی تھی کہ سعید ابھی زندہ ہے۔
میں بدحواسی میں گُلاب کو سینے سے چمٹائے اِدھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟ سوچا جا کر بابا کو ڈھونڈوں، مگر کہاں؟ مجھے معلوم تھا کہ بابا روز فجر پڑھ کر گاؤں کے دوسرے بوڑھوں کے ساتھ اِدھر ادھر نکل جاتا ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو میں باہر نکل آئی۔ شاید کسی سے مدد مانگ سکوں۔ مگر باہر تو ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ کچھ سلامت نہ تھا۔ نہ رستے ، نہ گھر، نہ درخت ، نہ پگڈنڈیاں۔ ہر شے پر دھول اور مٹی نے اپنی چادر پھیلا کر اسے اجڑے مزار کی طرح بے رنگ و روپ کر ڈالا تھا۔ کہیں کہیں گاؤں کی کوئی عورت ، کوئی بوڑھا یا جوان دکھائی دیا مگر سب بدحواس اور زخم خوردہ تھے۔ ایسے میں میری مدد کو کون آتا؟
میں خاموشی سے لوٹ آئی۔ گُلاب اب تک میرے سینے سے چمٹی ہوئی تھی۔
ڈری اور سہمی سی۔۔۔
میں مایوسی سے ملبے کے ڈھیر کے پاس بیٹھ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
آنکھیں میرا پور پور بھگونے کے بعد سوکھا کنواں بن گئیں۔ پتھرائے دید ے ملبہ تک رہے تھے کہ یکایک بازوؤں میں یوں طاقت بھر آئی، جیسے اچانک موت سے ٹکرانے کا جذبہ جاگ اٹھا ہو۔ میں نے گُلاب کو صحن میں پڑی چارپائی پر لٹایا اور ملبے کو ہٹانے کی تگ و دو کرنے لگی۔ تھوڑے سے پتھر ہٹا پائی کہ بازوشل ہوگئے اور میں ہانپنے لگی۔
میں بے بسی سے ملبے کی سمت دیکھتے ہوئے خُدا سے فرشتہ بھیجنے کی دُعا کرنے لگی کہ اچانک اجڑے ہوئے گھر کی دہلیز سے کوئی گھبرایا ہوا داخل ہوا۔ مجھے لگا خُدا نے فرشتہ بھیج دیا۔ میں دیکھتے ہی پہچان گئی۔ وہ پہلے بھی کئی بار آچکا تھا۔
یہ قربان علی تھا۔ میرے شوہر سعید شاہ کا ڈرائیور استاد۔ میں نے خُدا کا شکر ادا کیا۔ سعید نے رات کو بتایا تھا کہ استاد ایبٹ آباد میں ہے۔ وہاں سے ٹرک لوڈ ہوگا اور وہ دونوں واپس کراچی جائیں گے۔ میں نے قربان علی سے یہاں موجودگی کے بارے میں کچھ نہ پوچھا۔ مجھے اس کی آمد سے ڈھارس ملی تھی۔ اس نے بعد میں بتایا کہ وہ لاری اڈے والے حاجی صاحب کے ساتھ رات ہی مانسہرہ آگیا تھا۔ صبح زلزلے کے وقت وہ وہیں تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ آس پاس بہت تباہی ہوئی ہے۔ فوراّ سعید کا خیال آیا، وہ بھاگا اور جیسے تیسے یہاں پہنچ گیا۔
قربان علی نے میری اور گھر کی حالت سے جان لیا تھا کہ مجھ پر کیا قیامت گزری ہے۔ اس نے پہلے تو ڈھیلی آستینوں کو اوپر چڑھایا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے قمیص اتار کر ایک طرف ڈال دی اور بڑھ کر پتھر ہٹانے لگا۔ وہ ادھیڑ عمر مگر طاقت ور تھا۔ دیر تک وہ ملبے کی اس قبر کو ہاتھوں سے کھودتا رہا۔ کبھی کبھی وہ پلٹ کر میری طرف بھی دیکھنے لگتا۔ اس دوران ایک دو بار وہ سُستانے کے لیے وہیں ملبے کے ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ تب مجھے لگا جیسے وہ صرف مجھے دیکھنے کے لیے سُستانے کا بہانا کررہا ہے۔ میں توبے چین و بے قرار سعید کی سلامتی کی دُعائیں مانگ رہی تھی، ان باتوں پر کہاں توجہ دیتی۔
گھنٹوں کی مشقت کے بعد آخر کاروہ سعید تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ میں تڑپ کر پتھروں کے ڈھیر کی طرف بڑھی۔ یکایک قربان علی نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی وحشت دکھائی دی۔ لگا یہ ڈرائیور استاد نہیں کوئی اور ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر مجھے قریب آنے سے روک دیا۔ پھر اچانک قربان علی کے پیروں تلے پتھر سرکتے ہوئے تندور جیسے دھانے کو پاٹنے لگے۔ جوں ہی پتھر گڑھے میں گرے، کرب انگیز چیخ سنائی دی۔
’’یہ آواز؟‘‘ میں چونکی۔ اسے میں ہزارو ں میں پہچان سکتی تھی۔ میرے بکھرے ہوئے حواس کو سعید کے نام نے جکڑ لیا۔
ہاں یہ سعید کی آواز تھی۔۔۔ وہ چیخا تھا۔۔۔ وہ زندہ ہے۔۔۔ شاید کوئی پتھر اس سے ٹکرایا ہے۔ میں ذبح ہوتی ہوئی گائے کی طرح دکاری۔
’’سع ی ی ی د‘‘۔
میری آواز پہاڑوں سے جا ٹکرائی مگر کوئی گونج پیدا کیے بغیر واپس آگئی۔ پتھر سرکتے چلے گئے۔ وہ کسی آتش فشاں کا دہانہ تھا، کسی تندور کا یا کسی غار کا، بس بے دردی سے پاٹ دیا گیا۔ میرا الہ دین ہمیشہ کے لیے قید ہوگیا۔ بچپن میں سُنی ہوئی کہانی کا ظالم جادوگر میرے سامنے پوری خباثتوں کے ساتھ سراٹھائے موجود تھا۔ مجھ پر سکتا سا طاری تھا۔
جب زلزلہ آیا تب نہیں بلکہ میں اب بیوہ ہوئی تھی۔


اب کہانی مجھ سے سنیئے۔
میں افسانہ نگار ہوں۔ مجھے مجبوراً کرداروں کے درمیان آنا پڑا۔ سعید شاہ آگے کہانی بیان نہیں کرسکتا،کیوں کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں۔ قربان علی زندہ ہے، مگر اس کے ذریعے کہانی سُنی نہیں جاسکتی کیوں کہ وہ جھوٹ بولے گا او ر قاری سچ نہیں جان پائے گا۔ اب رہی تمنا تو وہ ملبے کے ڈھیر پر ہی بکھر چکی ۔ آخری چیخ کے بعد اس کے چاروں طرف سناٹا پھیل گیا جوکسی پتھرائی ہوئی حیرت اور قبر کی خاموشی کی طرح اس کے وجود میں سرائیت کر گیا ہے۔
لہذا اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اس طرح ہے۔
تمنا گھبرائی ہوئی ملبے سے اتری۔ گُلاب کو سینے میں دبوچ کر دیوار سے جالگی۔ اس کی سانسیں دھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔ قربان علی بھی نیچے اترا اور قمیص پہنتے ہوئے بولا۔
’’سعید کو گُزرے ہوئے کئی گھنٹے ہوچکے ۔ تجھے کیا لگا وہ ابھی زندہ ہے؟‘‘
آواز تمنا کے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے قربان علی کو تکے جارہی تھی۔
’’دیکھ اس وقت چاروں طرف لوگ چیختے چلاتے رورہے ہیں۔ مگر میں نے ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اللہ معاف کرے !اس کے چہرے کی حالت ایسی نہیں تھی کہ تو اسے دیکھتی۔۔۔ اور بس ۔۔۔ وہ۔۔۔پتھ پتھر۔۔۔ میرے پیروں میں سے خود ہی۔۔۔ یوں ہی۔۔۔ پھ پھسلنے لگے‘‘۔
قربان علی کی زبان لڑکھڑانے لگی۔ وہ خاموش ہوگیا اور نئے لفظ تراشنے کی کوشش کرنے لگا۔ دیر تک لفظوں کا تانا بانا بُننے کے بعد جب بولا تو نئے رشتے کی بنیاد رکھ چکا تھا۔ اب تمنا شمسہ کی طرح بیٹی اور گُلاب پیاری سی نواسی تھی۔
تمنا کے سارے دریا تو خشک ہوچلے تھے مگر بدن کا لہو اس کی آنکھوں میں اترا ہوا تھا۔ لیکن کیا کرتی، وہ دھان پان سی تھی اور سامنے چارپائی پر بیٹھا ہوا قربان علی لمبا چوڑا، جیسے کہانی کا۔۔۔
پھر دھیرے دھیرے اس کی آنکھوں کا لہو رگوں میں لوٹ گیا۔ وہ رشتے اور لفظوں کے جال میں پھنستی چلی گئی۔ شام ڈھلے قربان علی کے زمین پر پھیلے ہوئے لمبوترے سائے کے حصار میں چلتی ہوئی پہلے مانسہرہ پھر ایبٹ آباد اور اس کے بعد کراچی چلی آئی۔
راستے کی ہر منزل، ہر پڑاؤ پر وہ بیٹی بتائی گئی۔ مگر کراچی کے اونچے اونچے محرابی داخلی دروازوں تک آتے آتے سینکڑوں کلومیٹر پر پھیلے ہوئے سفر میں ٹرک ڈرائیور کی روزی رزق والی پاک گدی، اللہ اور رسول کے تغروں سے سجی ہوئی ٹرک کی چھت اور ڈھابے کے پچھواڑے بیتی ہوئی کہانیاں ایک بار پھر دُہرائی گئیں۔ مگر اس بار سعید شاہ کی خالی جگہ تمنا نے پُر کی تھی۔
قربان علی نے سہراب گوٹھ پر چار سو پھیلے ہوئے فلیٹوں کے جنگل میں کئی دن تمنا کو چُھپائے رکھا۔ پھر ایک دن بڑی سی چمکتی ہوئی کار میں ایک صاحبِ حیثیت میاں بیوی ننھی گُلاب کو اپنے ساتھ لے گئے۔ انہیں آنے والے برسوں میں ایسی خادمہ کی ضرورت تھی جس کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو۔
برف کی طرح ٹھنڈی تمنا نہ روئی نہ چلّائی۔
ایک اور دن فلیٹوں کے اسی جنگل کو سیراب کرنے والی ایک میڈم نے تمنا کو بڑی لگاوٹ سے ایک بار پھر بیٹی پکارا اور اپنی بانہوں کے مضبوط حصار میں ساتھ لے گئی۔ جوں جوں کراچی میں چھڑے مردوں کی تعداد بڑھ رہی تھی، نئی نئی لڑکیوں کی ضرورت بھی بڑھتی جارہی تھی۔
اب اس واقعہ کو سال ہوچلا ہے۔ شمسہ کی شادی ہوگئی۔ بے بے کو شادی کے لیے ڈھیر سارے پیسے قربان علی نے تمنا اور گُلاب کے سودے کے بعد ہی پہنچادیئے تھے۔ زلزلے کے بعد دوسرے ٹرک والوں کی طرح قربان علی نے اور بھی مال کمایا۔ اور اپنا ذاتی ٹرک خریدلیا۔ ڈیفنس کے ایک بنگلے کے سرونٹ کوارٹر میں گلاب اب پاؤں پاؤں چلنے لگی ہے۔ دوسری طرف تمنا کے پیروں سے دن بدن جان نکلتی جارہی ہے۔ میڈم سے ایک لیڈی ڈاکٹر اکثر کہتی ہے کہ اس دھان پان سی لڑکی کا خیال رکھو ورنہ اس کی ٹانگیں سوکھ جائیں گی۔


(۲۰۰۶ء)