Mohammad Ameenuddin

محمد امین الدین

ہم عصر پاکستانی افسانہ نگاروں میں ممتاز۔ عام سماجی موضوعات پر بے پناہ تخلیقی انداز کی کہانیاں لکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں

Prominent among the contemporary fiction writers of Pakistan

محمد امین الدین کی رباعی

    مجسمہ

    مددگاروں کو رخصت کرنے کے بعد ایقان دیر تک سنگِ مر مر کو چاروں طرف سے دیکھتا رہا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس چٹان کو اپنے حسین تصورات کا روپ دینے میں ضرور کامیاب ہوگا۔ اسی دوران اس کے کانوں سے آواز ٹکرائی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ برآمدے میں موم کھڑی ہوئی تھی۔ ایقان نے پتھر پر اچٹتی سی نظر ...

    مزید پڑھیے

    پندرھواں سال

    آج ہفتہ ہے اور معمولات کے مطابق آج مجھے ماں کا ہاتھ بٹانا ہے۔ ماں، جس سے میں بہت محبت کرتا ہوں۔ وہ تو میں پہلے بھی بہت کرتا تھا، مگر اب زیادہ کرنے لگا ہوں۔ عمر کے کئی برس میں نے اور ماں نے اکیلے ہی گزارے ہیں۔ اسی چھوٹے سے تین کمروں کے فلیٹ میں ابو کے بغیر۔ وہ ہمارے ساتھ زیادہ نہ رہ ...

    مزید پڑھیے

    ملامتی

    مہر آج اپنے گھر نہ پہنچ سکی تھی۔ دو میل پیدل چل کر وہ جیسے ہی خالہ اماں کے گھر میں داخل ہوتی اپنے کام میں لگ جاتی۔ نہ اسے تھکن کا احساس ہوتا اور نہ ہی کوئی آرام کی خواہش۔ بس اسے تو یہ یاد ہوتا کہ جلد سے جلد یہاں سے کام ختم کرکے اسے اگلے بلاک میں جانا ہے۔ اس کے ذمے تین کام تھے۔ ایک ...

    مزید پڑھیے

    سوال

    (سماجی مذہبی ذہنی ارتقا) سوال سے گریز، امکانات کا راستہ بند کرنے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر طوفان کے ٹل جانے کی امید کرنے والی قوم کی سرزمین پر جنم لینے والی اس کہانی کے دو کردا رہیں۔ یہ ایک دوسرے کو صرف ایک حوالے سے جانتے ہیں۔ مگر کبھی ملے نہیں ایک ملک کے بھی نہیں۔ ...

    مزید پڑھیے

    بھابی جان

    جنازے کے دہلیز پار کرتے ہی بھابی جان کی آنکھوں میں حیرت سے برف ہوئے آنسو چھلک پڑے۔ وہ غم سے چیخیں نہ درد سے چلائیں، بس ٹُک ٹُک اپنے محبوب شاعر اور چالیس سال کے رفیق کو جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔ دل و دماغ تو ساری طنابیں رات ہی کو توڑ چکے تھے جب چاروں بیٹے بیٹیوں اور ان کے بچوں کے ...

    مزید پڑھیے

    بساط کا آخری مُہرہ

    مغرب کی نماز کے بعد صحن کے درمیان قد آور نیم کے بوڑھے ، گھنے اور سایہ دار درخت کی چھپر چھاؤں تلے دودھیا بلب کی شفاف روشنی کے پھیلاؤ میں شیشم کی منقش میز پر شطرنج کی بساط بچھا دی گئی ۔ میز کے گرد پڑی کرسیاں ابھی خالی تھیں۔بادشاہ وزیر اپنے ہاتھی گھوڑوں اور پیادوں کے ہمراہ نئے دور ...

    مزید پڑھیے

    جلن

    جلتی آنکھوں، تپتے دماغ، سلگتے سینے اور نفرت انگیز دل سے اس نے جو کچھ کیا ،اس پر وہ مطمئن تھا۔ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ وہ درمیانی تعلیم اور کمتر ذہانت والاشخص تھا۔ اس کا دل اور دماغ جوفیصلہ کرسکتے تھے، اس نے وہی کیا۔ زندگی کے اسٹیج پر ایک ساتھ چلتے ہوئے ایک دن اسے لگا کہ وہ اس ...

    مزید پڑھیے

    اغواء

    ۱۶ نومبر ۲۰۰۱ء کی سبک سرنرم دھند میں لپٹی ہوئی صبح، جب کرۂ ارض پر عالمی لغت انسانی میں حاکمیت، انسانیت ، جنگ ، امن بھائی چارہ اور دہشت گردی جیسے لفظوں کے معنی بدل چکے تھے۔ ایک عورت ساری رات کی طلاطم خیز شب بیداری کے بعد بیٹھی نہ جانے کیوں دعائیں مانگ رہی تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا ...

    مزید پڑھیے

    آوازیں

    مرمریں فرش پر دور سے نزدیک ہوتی ہوئی سخت ایڑی والے جوتوں کی ٹَک ٹَک، چوڑیوں کی چھن چھن اور موسم کے پھولوں کی نرم و لطیف خوشبو نے میرے حواس کو چُھوا اور لمحہ بھر کو مجھے سحر زدہ کردیا اور پھر ایک ہی ردھم میں رقصاں آوازیں اور پھولوں کی مہک مجھ سے آگے نکل گئے۔ ہسپتال کے کسی بستر پر ...

    مزید پڑھیے

    کرداروں میں بٹی ہوئی زندگی

    تہذیب کے انتقال کے بعد بوڑھے کے لیے بچا ہی کیا تھا۔ جو وہ اونچی چھتوں، وسیع و عریض کمروں، لمبے دالانوں، پر پیچ سیڑھیوں، گھومتی راہداریوں والی قدیم حویلی میں رہتا۔ بچوں سے اس کا رشتہ تو بہت پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا۔ جب چھوٹی بہو نے اس کی یادداشتوں اور غزلوں سے بھرے کاغذوں کو یہ کہہ کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5