احساس سے عاری شہر

مردہ لوگوں سے بھرا ہوا شہر ، یہاں کفن ہی کفن ملتے ہیں۔ حدِ نگاہ کتبے ہی کتبے ہیں۔ ڈھانچے ہی ڈھانچے۔ جیسے شہر نہ ہو ایک بہت بڑا قبرستان ہو۔ ہر قبر ایک دوسرے سے نزدیک مگر ایک دوسرے سے غافل۔ برابر میں کون ہے، نہیں معلوم۔ اوپر نیچے کتنے ہی دفن ہیں، کسی کو کسی کی خبر نہیں۔ بے ہنگم شور۔ ہر مردہ اپنی میں مگن ہے۔ کسی کے قدم نہیں رکتے۔ پھر سلام دعا کیسی۔ خیریت کس سے معلوم کریں۔ اسے بھی یاد نہیں رہا تھا کہ سامنے کوئی آیا تھا جو اس کا اپنا تھا۔ بہت پرانا ساتھ پڑھا ساتھ کھیلا۔ بڑے میدان میں کبھی کرکٹ، کبھی ہاکی اور کبھی کبھی رات گئے تک میدان کے کنارے بنے ہوئے مختصر سے گھاس کے قطعے پر بیٹھ کر بحث و مباحثہ، سب بھول گئے کچھ یاد نہیں۔ اسے بھی اور اِ سے بھی۔ پھر کیسی شناسائی، کیسی رفاقت، وہ بھی بھول گیا، یہ بھی۔
سب دوڑ رہے ہیں جیسے سب سے آگے جانے والے کو بہت بڑا انعام ملے گا۔ کیسا انعام! کسی کو خبر نہیں مگرتیزی میں اور تیزی آتی جارہی ہے۔ روڈ پر ٹریفک کا اژدھام ہے۔
اچانک شور اٹھا۔ دو گاڑیاں آپس میں ٹکراگئی تھیں۔ درمیان میں ایک غریب سائیکل سوار آگیا۔ پتا چلا مر گیا ہے۔ کسی کو اس کا خیال نہیں۔ اب وہ ایک لاش ہے۔ کفن پہناؤ اور ورثاء کے حوالے کردو مگر جو کار کا نقصان ہوا ہے وہ بہت زیادہ ہے لہذا کفن نہیں پہنایا جاسکتا۔ تیزی میں کوئی کسی کو نہیں پکڑ سکتا۔
سڑک کے درمیان میں پڑی لاش ٹریفک کی روانی میں مخل ہورہی ہے۔ ایک بے یارومددگار لاش۔
ایک خدا ترس آگے بڑھا۔ فٹ پاتھ کی طرف لاش گھسیٹی، یہ دیکھنے کے لیے کہ کہاں رہتا تھا، ایک پرچہ کسی ڈاکٹر کا لکھا ہوا نکلا۔ کچھ پیسے بھی تھے۔ خدا ترس نے چاروں طرف ہجوم کو دیکھا۔ چور نگاہوں سے جائزہ لیا۔ پیسے مٹھی میں دبالیے۔ لوگوں کو صرف پرچے کا علم ہوا۔ پیسے غائب ہوگئے۔
پولیس آگئی اور انتظام ہوگیا۔ ہجوم چھٹ گیا۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوگئے۔بھول گئے کہ ہمارے درمیان کسی کی لاش پڑی تھی جس کی جیب میں ایک دواؤں کا پرچہ تھا مگر وہ دوائیں کس کے لیے لینے جارہا تھا؟ خود تو بیمار نہیں لگتا تھا شاید روایتی فلموں کی طرح ماں بیمار تھی، نہیں بہن ہوگی، کیا پتا باپ بیمار پڑا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیمار بیوی ہو اور شاید اب بیوہ بھی۔ جوان ہے، شادی شدہ لگتا ہے۔ بچے ہوں گے، وہ بھی یتیم ہوگئے۔
’’اف چھوڑو جانے دو۔۔۔ اپنا کیا لگتا ہے۔ ہاں بھائی آپ کو کیا چاہیے؟ جی ہا ں موجود ہے۔۔۔ صرف ستر روپے کی۔۔۔ نہیں جی زیادہ نہیں بتائیے اتنے ہی ہوں گے، آپ کی مرضی ، مجھے تو کچھ نہیں بچ رہا پھر بھی دے رہا ہوں۔ شکریہ! اے لڑکے! اسے لفافے میں بند کرکے صاحب کو دے دو اور ہاں۔۔۔ ذرا ایئر کنڈیشنر کی رفتار بھی تیز کردو۔۔۔ بہت گرمی لگ رہی ہے‘‘۔
لاش اب بھی پڑی ہے۔ دور سے ایک سائیکل سوار ہاکر اخبار بیچتا آرہا ہے۔ زور زور سے آواز دیتا جارہا ہے۔ آج کی اہم خبر شہر کے سب سے بڑے سیٹھ نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی۔ لوگ دھڑا دھڑ اخبار خرید رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے سوال کررہے ہیں۔ کیوں گولی ماری؟ اسے کس چیز کی کمی تھی، کیا مجبوری تھی؟ میرے خیال میں اس بار گھاٹا ہوگیا ہوگا۔ نہیں دوسری بیوی نے طلاق لے لی تھی۔ یہ بات بھی نہیں بلکہ ایک لڑکی نے عدالت میں دعویٰ کردیا تھا کہ سیٹھ اس کے ہونے والے بچے کا باپ ہے۔ حیرت ہے۔ اس قدر دولت اور یہ کرتوت۔ توبہ ہے، بیٹی کے برابر تھی بلکہ اور چھوٹی۔ عزت چلی گئی، اب خودکشی نہ کرے تو کیا کرے ۔ لو ایک اورخبر ہے۔ لکھا ہے کہ اپنی وصیت میں سیٹھ نے بے سہارا مرکز کے لیے ۵ لاکھ روپے وقف کیے ہیں۔ چلو ایک نیک کام بھی ہوا۔ گناہوں کا کفارہ ادا کردیا۔ مگر وہ بچہ۔۔۔ اجی توبہ توبہ۔
سب اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ دھوپ بہت تیز ہے۔ خوانچہ فروش اپنا ٹھیلہ پیچھے ہٹا رہا ہے۔ دکان کے سائے میں مگر دکاندار نے جھاڑ دیا۔’’ کہیں اور لگاؤ اپنا ٹھیلا۔۔۔ جاؤ‘‘۔ خوانچہ فروش کا منہ اتر گیا۔ واپس دھوپ میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اچانک دھوپ میں بھی شدت پیدا ہوگئی۔


(۱۹۸۲ء)