سمٹا تو میں ذرہ ہوں بکھرا تو میں صحرا ہوں
سمٹا تو میں ذرہ ہوں بکھرا تو میں صحرا ہوں
تھم جاؤں تو قطرہ ہوں بہہ جاؤں تو دریا ہوں
کیوں طور پہ میں جاؤں کیوں عرش پہ میں جاؤں
اس کا ہی تو پرتو ہوں میں اس کے سوا کیا ہوں
کیا کوئی شریک غم ہوگا مرا دنیا میں
وہ عرش پہ تنہا ہے میں فرش پہ تنہا ہوں
سورج سے شعاعیں کب ہوتی ہیں جدا اس سے
وہ نور کا منبع ہے میں نور کا دریا ہوں
سمجھوں تو اگر خود کو بن جاؤں مہ کامل
مانا کہ فلک سے میں ٹوٹا ہوا تارا ہوں
کیا کوئی مجھے سمجھے کیا کوئی مجھے جانے
بکھرا ہوا جلوہ ہوں سمٹا ہوا پردا ہوں
کیوں مجھ کو چڑھاتے ہیں وہ دار پہ رومانیؔ
میں خاک کے پردہ میں اس کا ہی تو جلوہ ہوں