جنید آزر کی غزل

    آخری لہر کنارے پہ اچھال آیا ہے

    آخری لہر کنارے پہ اچھال آیا ہے میرے دریا کو سخاوت میں کمال آیا ہے خواب تازہ کہ جو منسوب ترے نام سے تھا اب تری سمت سے لوٹا تو نڈھال آیا ہے تھک کے گر سکتا ہوں اک روز میں چلتے چلتے دیکھ کر بکھرے ہوئے پر یہ خیال آیا ہے اب جو ہر آنکھ تمنا سے مجھے دیکھتی ہے ایک مدت میں جلا تب یہ جمال ...

    مزید پڑھیے

    اس نے خود کو گزارا پھولوں سے

    اس نے خود کو گزارا پھولوں سے بھر گیا شہر سارا پھولوں سے تم مجھے آسمانی لگتے ہو کہہ رہا تھا ستارہ پھولوں سے باغ سے لے لی دشمنی میں نے ذکر کر کے تمہارا پھولوں سے لگ گئی آگ سبز منظر میں کیا ہوا ہے اشارہ پھولوں سے خوشبوؤں کے سفیر ہیں ہم لوگ ہے تعلق ہمارا پھولوں سے تتلیاں بیچ کر ...

    مزید پڑھیے

    جس قدر بھی پھیل جاؤں منظروں کے درمیاں

    جس قدر بھی پھیل جاؤں منظروں کے درمیاں آسماں تو آ نہیں سکتا پروں کے درمیاں میرے رونے کی صدا جاتی نہیں ہمسائے تک اور کتنا فاصلہ ہو دو گھروں کے درمیاں ہنس رہے ہیں دیکھ کر زخم جنوں کی وحشتیں گھر گئے ہم اہل دل کن مسخروں کے درمیاں کھینچ لائی زندگی ہم کو بھرے بازار میں ہم تماشا بن ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو کی خانقاہ میں ہے میرا دشت سبز

    خوشبو کی خانقاہ میں ہے میرا دشت سبز اک خواب کی پناہ میں ہے میرا دشت سبز کس لمس کی طلب میں ہمکتا ہے روز و شب کس خواہش گناہ میں ہے میرا دشت سبز ہر صبح آفریں کی تمنا میں ہے مدام ہر شام کی نگاہ میں ہے میرا دشت سبز گو خاک کر چکی ہے مجھے تیری آرزو پھر بھی ترے نباہ میں ہے میرا دشت ...

    مزید پڑھیے

    کس عرصۂ حیات میں رکھا گیا مجھے

    کس عرصۂ حیات میں رکھا گیا مجھے دن رات سانحات میں رکھا گیا مجھے ہر گام زیب دار ہوا ہے مرا وجود ایسے بھی التفات میں رکھا گیا مجھے خوشبو کے نام پر مری سانسیں کشید کیں موسم کے انحطاط میں رکھا گیا مجھے دے کر فریب قرب مجھے فاصلے دئے ترک تعلقات میں رکھا گیا مجھے پہلے مری فنا پہ لیے ...

    مزید پڑھیے

    اک آفتاب کے ہمسر چراغ میرا بھی تھا

    اک آفتاب کے ہمسر چراغ میرا بھی تھا سو کچھ دنوں تو فلک پر دماغ میرا بھی تھا ترے بہشت سے گزرا تو یاد آیا مجھے اسی طرح کا کہیں ایک باغ میرا بھی تھا اسے بھی میری طلب تھی شب چہار دہم مہ تمام کے سینے میں داغ میرا بھی تھا جہاں تو کھوج رہا تھا بجھے ستاروں کو انہی کی راکھ میں پنہاں سراغ ...

    مزید پڑھیے

    کسی جلوہ گاہ مجاز میں کہیں رہ گیا

    کسی جلوہ گاہ مجاز میں کہیں رہ گیا میں ترے بدن کی نماز میں کہیں رہ گیا کئی اور فرض بھی تھے جبین نحیف پر مرا ذوق عجز و نیاز میں کہیں رہ گیا جہاں منزلوں کی لپک تھی چشم فریب میں میں انہی نشیب و فراز میں کہیں رہ گیا مرے حرف گریہ کناں میں ایسی گرہ پڑی مرا نغمہ سوز حجاز میں کہیں رہ ...

    مزید پڑھیے

    غبار بنتا ہوں خود کو اڑا کے اٹھتا ہوں

    غبار بنتا ہوں خود کو اڑا کے اٹھتا ہوں سفر کا آخری منظر بنا کے اٹھتا ہوں ابھی میں جوڑنے والا ہوں دو جہانوں کو کنارے ان کے برابر میں لا کے اٹھتا ہوں ذرا رکو کہ ابھی سننے والے سنتے ہیں بس ایک آخری قصہ سنا کے اٹھتا ہوں ابھی تو رات مرے ارد گرد بیٹھی ہے اسے میں نور سحر سے ملا کے اٹھتا ...

    مزید پڑھیے

    کئی دلوں کے لیے وجہ اضطراب ہوں میں

    کئی دلوں کے لیے وجہ اضطراب ہوں میں مگر تمہیں تو سہولت سے دستیاب ہوں میں سنائی دوں گا میں تجھ کو تری ہی دھڑکن میں کبھی تو پڑھ مجھے احساس کی کتاب ہوں میں جسے بھی چاہا اسے خود سے بڑھ کے چاہا ہے اسی لیے تو محبت میں کامیاب ہوں میں کیا ہے ہجر میں اختر شماریوں سے گریز سو رتجگوں کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    خون سے لکھتا ہے تعویذ اجل کاغذ پر

    خون سے لکھتا ہے تعویذ اجل کاغذ پر وقت کرتا ہے عجب سفلی عمل کاغذ پر رنج مٹنے کا نہیں پھر بھی تسلی کے لیے مصرع درد کی ترتیب بدل کاغذ پر یہ تخیل ہے کہ امڈا ہوا دریا کوئی موجۂ آب رواں ہے کہ غزل کاغذ پر کتنے جذبے تری بے راہروی نے کچلے حرف آوارہ ذرا دیکھ کے چل کاغذ پر کھیتیاں کیا کیا ...

    مزید پڑھیے