خون سے لکھتا ہے تعویذ اجل کاغذ پر
خون سے لکھتا ہے تعویذ اجل کاغذ پر
وقت کرتا ہے عجب سفلی عمل کاغذ پر
رنج مٹنے کا نہیں پھر بھی تسلی کے لیے
مصرع درد کی ترتیب بدل کاغذ پر
یہ تخیل ہے کہ امڈا ہوا دریا کوئی
موجۂ آب رواں ہے کہ غزل کاغذ پر
کتنے جذبے تری بے راہروی نے کچلے
حرف آوارہ ذرا دیکھ کے چل کاغذ پر
کھیتیاں کیا کیا اگاتا ہوں سر دشت خیال
لہلہاتا ہے کوئی پھول نہ پھل کاغذ پر
لفظ جب آ کے چمکتا ہے سر نوک قلم
روشنی دیتا ہے مہتاب ازل کاغذ پر
جب کبھی چاہا لکھوں جھیل تری آنکھوں کو
تیرنے لگتے ہیں خوشبو کے کنول کاغذ پر
ایک تصویر بنا کر میں ترے ہونٹوں کی
ثبت کر دوں گا کسی یاد کے پل کاغذ پر
تتلیاں آنے لگیں پرسۂ غم کی خاطر
تجھ سے یہ کس نے کہا پھول مسل کاغذ پر
روشنائی کو ہمہ گیر اجالے میں بدل
اپنی فطرت کی سیاہی تو نہ مل کاغذ پر
اور کچھ دیر میں یہ رنگ نکالے گی کئی
یہ جو بکھری سی ہے نوخیز غزل کاغذ پر