غبار بنتا ہوں خود کو اڑا کے اٹھتا ہوں

غبار بنتا ہوں خود کو اڑا کے اٹھتا ہوں
سفر کا آخری منظر بنا کے اٹھتا ہوں


ابھی میں جوڑنے والا ہوں دو جہانوں کو
کنارے ان کے برابر میں لا کے اٹھتا ہوں


ذرا رکو کہ ابھی سننے والے سنتے ہیں
بس ایک آخری قصہ سنا کے اٹھتا ہوں


ابھی تو رات مرے ارد گرد بیٹھی ہے
اسے میں نور سحر سے ملا کے اٹھتا ہوں


ستارے سنتے ہیں اک انہماک سے اس کو
فسانۂ غم ہجراں سنا کے اٹھتا ہوں


یہ معجزہ بھی مری آنکھ کو عطا ہوا ہے
میں سوکھی ریت سے دریا بنا کے اٹھتا ہوں


زمیں پہ کب سے بھٹکتی ہے خلقت تیرہ
چراغ ہوں اسے رستہ دکھا کے اٹھتا ہوں