جس قدر بھی پھیل جاؤں منظروں کے درمیاں
جس قدر بھی پھیل جاؤں منظروں کے درمیاں
آسماں تو آ نہیں سکتا پروں کے درمیاں
میرے رونے کی صدا جاتی نہیں ہمسائے تک
اور کتنا فاصلہ ہو دو گھروں کے درمیاں
ہنس رہے ہیں دیکھ کر زخم جنوں کی وحشتیں
گھر گئے ہم اہل دل کن مسخروں کے درمیاں
کھینچ لائی زندگی ہم کو بھرے بازار میں
ہم تماشا بن گئے بازی گروں کے درمیاں
چار جانب سے ہے دل پر یورش آلام و غم
ایک آئینہ پڑا ہے پتھروں کے درمیاں
فیصلہ ہونا ہے آخر تیغ اور دستار میں
کشمکش بڑھنے لگی ہے اب سروں کے درمیاں
منزلوں کا ذکر کیسے ہو ابھی تو خیر سے
راہ کا جھگڑا پڑا ہے رہبروں کے درمیاں
مشورہ میرا بھی سنتے مشوروں کے درمیاں
اٹھا بیٹھا میں بھی ہوں دیدہ وروں کے درمیاں
ہم نے مانے ہی نہیں جبر و ستم کے ضابطے
سر بلند آذرؔ رہے ہم خود سروں کے درمیاں