کئی دلوں کے لیے وجہ اضطراب ہوں میں

کئی دلوں کے لیے وجہ اضطراب ہوں میں
مگر تمہیں تو سہولت سے دستیاب ہوں میں


سنائی دوں گا میں تجھ کو تری ہی دھڑکن میں
کبھی تو پڑھ مجھے احساس کی کتاب ہوں میں


جسے بھی چاہا اسے خود سے بڑھ کے چاہا ہے
اسی لیے تو محبت میں کامیاب ہوں میں


کیا ہے ہجر میں اختر شماریوں سے گریز
سو رتجگوں کے لیے نیند کا عذاب ہوں میں


چھپا دیا گیا جس کو حنوط کر کے کہیں
کسی قدیم تمدن کا وہ شباب ہوں میں


ٹھہرنے دیتا نہیں مجھ کو پاؤں کا چکر
سو بے قرار بگولوں کے ہم رکاب ہوں میں


رواں دواں ہیں مرے دم سے کائنات و حیات
نگار مصحف ہستی کا انتساب ہوں میں