کس عرصۂ حیات میں رکھا گیا مجھے

کس عرصۂ حیات میں رکھا گیا مجھے
دن رات سانحات میں رکھا گیا مجھے


ہر گام زیب دار ہوا ہے مرا وجود
ایسے بھی التفات میں رکھا گیا مجھے


خوشبو کے نام پر مری سانسیں کشید کیں
موسم کے انحطاط میں رکھا گیا مجھے


دے کر فریب قرب مجھے فاصلے دئے
ترک تعلقات میں رکھا گیا مجھے


پہلے مری فنا پہ لیے میرے دستخط
تب جا کے ممکنات میں رکھا گیا مجھے


روتا رہا لپٹ کے مرے ساتھ تیرا وصل
جب ہجر کی قنات میں رکھا گیا مجھے