انقلاب

رات ڈھلتی ہے صبح ہوتی ہے
کھول دو اب تو اٹھ کے دروازہ
اس اندھیری سی کوٹھری میں آج
وقت آیا ہے رہنے بسنے کو
ایسے مہماں کا کیا بھروسہ ہے
یہ دبے پاؤں لوٹ جائے گا