جاناں ملک کی نظم

    لفظ پروں کی طرح ہوتے ہیں

    تمام دن تمہارے میسیجز میرے دل کی منڈیروں پر کبوتروں کی طرح اترتے ہیں سفید دودھیا سیاہ چشم شربتی اور سرمئی مائل جنگلی کبوتر جن کے سینے کے بال کئی رنگوں میں دمکتے ہیں سبز گوں نیلگوں اور تابدار تپتے ہوئے تانبے کے جیسے میں ان کی زبان سمجھتی ہوں غٹرغوں غٹرغوں کتنی پرواز کر کے آتے ...

    مزید پڑھیے

    شہزادے

    میں نظم ادھوری لکھ لائی ہوں تم اس نظم کو عنواں دے دو تم یہ نظم مکمل کر دو لیکن تم اس گہری چپ میں کیا اس نظم کو تم انجام نہیں دو گے اس کو نام نہیں دو گے

    مزید پڑھیے

    لا حاصل

    ملگجے سے دھندلکے میں جب تم یونیورسٹی سے لوٹ رہے ہوتے ہو وہیں کیمپس کے باہر میں بھی تو بیٹھی ہوتی ہوں کبھی نہ ختم ہونے والے انتظار میں میں تمہیں دیکھ رہی ہوتی ہوں اور تم پاس سے ایسے گزر جاتے ہو جیسے واقف ہی نہ ہو میں وہیں دہلیز پہ بیٹھی رہ جاتی ہوں پھر پل کے پاس سے جب تم گزرتے ...

    مزید پڑھیے

    کون سمجھے گا اس پہیلی کو

    میونخ میں آج کرسمس ہے سارے مناظر نے سفید چادر اوڑھ رکھی ہے کمرے کی کھڑکی سے آتی اداسی چہار سو پھیلتی جا رہی ہے اندھیرا اداسیوں کے نوحے پڑھ رہا ہے ممٹیوں سے پھسلتا نہیں کوئی کنکر لمحے ساکت ہو گئے ہیں الماری کے خانوں میں کچھ یادیں بکھری پڑی ہیں سامنے پڑی کرسی جھول رہی ...

    مزید پڑھیے

    لوہے کے جبڑے

    تمہیں یاد ہوگا تم نے مجھے پچھلے برس خط میں اپریل بھیجا جو مجھ تک پہنچتے پہنچتے اگست ہو گیا لفظ پیلے پتوں کی طرح فرش پر بکھر گئے دسمبر کی سرد راتوں میں میں وعدوں کے آتش دان پر بیٹھی جاگتی رہی میری رگوں میں جما ہوا دسمبر آنکھوں سے پگھل کر بہتا رہتا ہے اس برس مجھے خط میں کچھ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    آنچل کے پلو کو گانٹھ نہیں لگتی

    آج تمہارے شہر سے واپس لوٹ رہی ہوں لیکن کیسے ثابت و سالم کون پلٹ کر جاتا ہے کس دل سے آئی تھی میں تم سے ملنا کیسا ہوگا جانے کیا کچھ من میں تھا تم سے ملوں گی اور تم سے ملوں گی اور بہت سی باتیں ہوں گی کچھ ہونٹوں سے بہہ نکلیں گی کچھ آنکھیں تحریر کریں گی لیکن یہ سب خواب تھا میرا دیکھو ...

    مزید پڑھیے

    نظم کا کچھ بھی نام نہیں

    شہزادے اے ملک سخن کے شہزادے دیکھو میں نے نظم لکھی ہے نظم کہ جیسے دل کا شہر شہر کہ جس میں تم رہتے ہو آدھے ہنس ہنس باتیں کرتے اور آدھے گم صم رہتے ہو تمہیں ادھوری باتیں اور ادھوری نظمیں اچھی لگتی ہیں نا تم کہتے ہو بات ادھوری میں بھی اک پورا پن ہوتا ہے خاموشی کے کتنے معنی ہوتے ہیں کچھ ...

    مزید پڑھیے

    بادل سے مکالمہ

    کیسا ابر ہے جس کے برسنے کی ہر پل امید لیے آنکھیں تشنہ لب رہتی ہیں اس کو دیکھ کے یہ کشت بارانی بھرتی ہے یہ جنموں کی پیاس ہو جیسے اس مٹی کی ایک اک بوند اترتی مجھ سے باتیں کرتی ہے پہلے میں بارش کو دیکھ کے خوش ہوتی تھی اب میں اس میں بھیگ کے اس کی باتیں سنتی ہوں

    مزید پڑھیے

    میں دریوزہ گر

    تم نے کبھی سوچا ہے تمہاری یہ گہرے سناٹوں میں ڈوبی خامشی اس دریوزہ گر پر کتنی بھاری پڑتی ہے وہ باتیں جو تمہارے مزاج معلیٰ کی نفاستوں پہ گراں گزرتی ہیں میرے لیے کیا معنی رکھتی ہیں کیا کبھی تم نے پر سکوت سمندر کے اندر بپھری ان لہروں کی آواز سنی ہے جو کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    آگہی کا دکھ

    آگہی کا دکھ تم کیا جانو کس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے جب اس کے سانپ گلے میں لپٹ جاتے ہیں اور بھینچتے ہیں سانسیں رک جاتی ہیں بار بار پھنکارتے اور ڈستے ہیں صبح و شام رات دن ان کا زہر رگ و پے میں اتر جاتا ہے میرے لہو میں سرایت کرتا ہے میں ٹوٹتی پھوٹتی رہتی ہوں کانچ کی طرح ریت کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2