لوہے کے جبڑے
تمہیں یاد ہوگا
تم نے مجھے پچھلے برس خط میں اپریل بھیجا
جو مجھ تک پہنچتے پہنچتے اگست ہو گیا
لفظ پیلے پتوں کی طرح
فرش پر بکھر گئے
دسمبر کی سرد راتوں میں
میں وعدوں کے آتش دان پر
بیٹھی جاگتی رہی
میری رگوں میں جما ہوا دسمبر
آنکھوں سے پگھل کر
بہتا رہتا ہے
اس برس مجھے
خط میں کچھ نہیں بھیجنا
کچھ بھی نہیں
شاید اذیتوں سے بھری
شاخوں پر
کسی وعدے کی کونپل
پھوٹ پڑے
موسموں کا کیا ہے کب بدل جائیں
بے اعتبار لہجوں کی طرح
وقت سب کچھ الٹ پلٹ رہا ہے
شاید تمہارے لوٹنے تک
بہت کچھ ویسا نہ رہے
جیسا تم چھوڑ گئے تھے
لوہے کے جبڑے
مٹی کے ملبوس
کو تار تار کرتے جا رہے ہیں
پل جہاں سے تم پارک کے کنارے
کھڑے دکھائی دیتے تھے
وہ منظر میٹرو بس نے نگل لیا ہے
سنبل کے پیڑوں کی جگہ شاپنگ مال لے چکا ہے
اور ہاں
وہ پھولوں والی دکان
جہاں سے ہم بکے لیتے تھے
وہاں فاسٹ فوڈ بن گیا
دل کی جگہ انتڑیوں نے لے لی ہے
کیا کچھ اور کیسے بدل جاتا ہے