لا حاصل

ملگجے سے دھندلکے میں جب تم یونیورسٹی سے
لوٹ رہے ہوتے ہو
وہیں کیمپس کے باہر
میں بھی تو بیٹھی ہوتی ہوں
کبھی نہ ختم ہونے والے انتظار میں
میں تمہیں دیکھ رہی ہوتی ہوں
اور تم
پاس سے ایسے گزر جاتے ہو
جیسے واقف ہی نہ ہو
میں وہیں دہلیز پہ بیٹھی رہ جاتی ہوں
پھر پل کے پاس سے جب تم گزرتے ہوئے
ڈوبتے سورج کو ایک نظر دیکھتے ہو
دور کہیں اس ڈوبتے سورج کی سرخ تانبے ایسی روشنی سے تمہاری دہکتی جبیں پر
جب دراڑیں پڑنے لگتی ہیں
میں تب بھی تمہیں دیکھ رہی ہوتی ہوں
گلی کا بلب روشن کرتے ہوئے
ایک پل کے لیے سوچ میں پڑ جاتی ہوں
اب بھلا میرے لیے من و سلویٰ کیوں اترنے لگا
میں دروازہ کھولے زندگی کا انتظار کرتی ہوں
مگر وہ میرے ہاتھ نہیں آتی