میں دریوزہ گر

تم نے کبھی سوچا ہے
تمہاری یہ گہرے سناٹوں میں ڈوبی خامشی اس دریوزہ گر پر کتنی بھاری پڑتی ہے
وہ باتیں جو
تمہارے مزاج معلیٰ کی نفاستوں پہ گراں گزرتی ہیں میرے لیے کیا معنی رکھتی ہیں
کیا
کبھی تم نے پر سکوت سمندر کے اندر بپھری ان لہروں کی آواز سنی ہے جو کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہیں
میں نے سنی ہے
مجھ سے پوچھو
تمہاری خامشی میں لپٹے کسی طوفان کا سائرن کیا جانتے ہو تم
میں نے سنا ہے
تمہارے ہونٹوں سے گوہر نایاب کی طرح نکلا ایک ایک لفظ تمہاری یہ ٹھنڈے میٹھے چشمے جیسی باتیں اور شیریں انداز سخن صحرا میں
چلتے مسافر کی طرح میرے وجود کو سیراب کرتا ہے
میں جو تمہارے در کے آگے اپنا دامن پھیلائے ان نایاب موتیوں کو چننے کی چاہت میں بیٹھی رہتی ہوں
جسے کبھی تو تم نا مراد لوٹا دیتے ہو کبھی بہت مہرباں ہو کر کچھ خیرات
اس کے دامن میں ڈال جاتے ہو
جس کو میں تمہاری گلیوں کی دریوزہ گر کسی قیمتی اثاثے کی طرح
چن کے اپنی پوٹلی میں رکھ لیتی ہوں