جاناں ملک کی نظم

    ماس خور

    ہم اپنے شکستہ جسموں اور اپاہج روحوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے اس اپاہج پن کو دور کرنے کے لیے ایک دوسرے کے جسموں اور نظموں میں پناہ گزیں ہوئے تو تاک میں بیٹھے وحشتوں کے درندوں نے ہمارے جسموں کو نگل لیا اور ہمیں انسان سے گدھ بنا دیا ہمیں نہ ختم ہونے والی بھوک نے آ لیا اب ہم اپنے ...

    مزید پڑھیے

    میں ایک رات تھی

    میں رات تھی سیاہ رات ایک نقطے میں سمٹی ہوئی آنکھ کی پتلی جیسے نقطے میں میں نے ایک دن کو باہر نکالا پھر اس دن کی با ایں پسلی سے خود باہر نکلی پھر مرے اندر کتنے سورج چاند اور ستارے اپنی اپنی منزلیں طے کرنے لگے میں رات ہوں کبھی نہ ختم ہونے والی رات میں نے اپنی پوشاک کا رنگ پیدا کیا ...

    مزید پڑھیے

    بابل تیری یاد

    بابا ایسے میں تم یاد بہت آتے ہو کیسی رت ہے ایسی رت میں آنکھیں کیوں بھر آتی ہیں کیوں تن من سے ہوک اٹھتی ہے کیوں جیون بے معنی سا لگنے لگتا ہے گھر سونا ویران یہ آنگن اور کمروں میں وحشت بابل میں تنہا میری قیمت تجھ بن کیا ہے کچھ بھی نہیں ہے میں تو کانچ کا موتی ہوں بابل کا آنگن تو ساون ...

    مزید پڑھیے

    دو لفظوں کی دوری پر چاہتوں کے موسم

    یاد ہے اس نے مجھ سے کہا تھا جاناں بیٹھو آج بڑے دن بعد آئی ہو شاید تم تو ان گلیوں کو ان رستوں کو دروازوں کو اک مدت سے بھول چکی ہو رشتوں کے دروازوں سے دروازے ملتے ہیں اور دیواریں دیواروں سے آنکھوں سے اوجھل ہونے سے رشتے کم نہیں پڑ جاتے اس نے کہا پھر بیٹھو جاناں چائے پیو گی آج تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    چیزوں کے اندر جھانکنے کی کوشش

    میں نے ایک سوکھتے پیڑ پر نظم لکھنا شروع کی میرے اندر پیلے پتوں کے ڈھیر لگ گئے میں نے ہوا پر نظم لکھی میرے اندر شاخیں پھوٹنے لگیں پھول میری ہتھیلیوں سے باہر نکل آئے میں نے بارش پر نظم لکھی میری چادر کے پلو بھیگ گئے جن کو سکھانے کے لئے میں نے دھوپ پر نظم لکھی سورج سوا نیزے پر آ ...

    مزید پڑھیے

    کیسا ابر ہے جس کے برسنے کی

    کیسا ابر ہے جس کے برسنے کی ہر پل امید لئے آنکھیں تشنہ لب رہتی ہیں اس کو دیکھ کے یہ کشت بارانی بھرتی ہے یہ جنموں کی پیاس ہو جیسے اس مٹی کی ایک اک بوند اترتی مجھ سے باتیں کرتی ہے پہلے میں بارش کو دیکھ کے خوش ہوتی تھی اب میں اس میں بھیگ کے اس کی باتیں سنتی ہوں

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2