لفظ پروں کی طرح ہوتے ہیں
تمام دن تمہارے میسیجز میرے دل کی منڈیروں پر کبوتروں کی طرح اترتے ہیں
سفید دودھیا سیاہ چشم شربتی اور سرمئی مائل جنگلی کبوتر جن کے سینے کے بال
کئی رنگوں میں دمکتے ہیں
سبز گوں نیلگوں اور تابدار تپتے ہوئے تانبے کے جیسے
میں ان کی زبان سمجھتی ہوں
غٹرغوں غٹرغوں
کتنی پرواز کر کے آتے ہیں
شام سے میں ان کے ساتھ
ایک کابک میں بند ہو جاتی ہوں
وہ میرے بازوؤں کندھوں اور میرے سر پر بیٹھ جاتے ہیں
مجھے صبح تک سونے نہیں دیتے
ان کے پر سحر انگیز لفظوں کی طرح
اپنے معانی کھولتے ہیں
تمہیں معلوم ہے پر لفظوں کی طرح ہوتے ہیں کھلتے ہیں معانی کی طرح
تہہ در تہہ
علامتیں
رمز نگاری
اور اشارے کنائے سب کچھ
اور یہ لفظ اپنے ساتھ نیندیں اڑا کر لے جاتے ہیں
رات میری نیندیں لے کر گلی میں
سیٹیاں مارتی ہے
اور خواب کھڑکیوں پر دستکیں دیتے ہیں
تم اپنی کروٹ بدلتے ہو
اور رات اپنی پوشاک
میں ان کے پیروں میں
موتیوں والی جھانجھریں ڈالتی ہوں
یہ اپنا اپنا دانہ دنکا چگ کر
تمہاری اور اڑ جاتے ہیں
اور پھر ایک نئی ڈار اترتی ہے