Jan Kashmiri

جان کاشمیری

جان کاشمیری کی غزل

    عمر بھر زیست کی مہکار سے بچ بچ کے چلا

    عمر بھر زیست کی مہکار سے بچ بچ کے چلا دل جلا رونق بازار سے بچ بچ کے چلا بے سلوکی نے برائی میں بھی جڑ پکڑی ہے کیوں ریاکار ریاکار سے بچ بچ کے چلا اس قدر اپنے گناہوں سے عقیدت ہے مجھے عمر بھر صاحب کردار سے بچ بچ کے چلا میری کٹیا میں ضیا بار ہے بجھتا سا دیا چاند کیوں روزن دیوار سے بچ ...

    مزید پڑھیے

    بچہ بنا ہوا ہے بغاوت کے بعد بھی

    بچہ بنا ہوا ہے بغاوت کے بعد بھی نادم نہیں ہے کوئی شرارت کے بعد بھی تانا برستی آگ میں کاغذ کا سائباں جل بجھ گئے ہیں لوگ حفاظت کے بعد بھی منزل پہ جا کے پاؤں کے چھالے ابل پڑے ہم کو سکوں ملا نہ مسافت کے بعد بھی سورج کی روشنی بھی نہ دل میں اتر سکی ٹھنڈک رہی بدن میں تمازت کے بعد ...

    مزید پڑھیے

    ہر رستہ پر بہار ہوا ہے ابھی ابھی

    ہر رستہ پر بہار ہوا ہے ابھی ابھی دل دل کا رازدار ہوا ہے ابھی ابھی دامن کی دھجیوں کو ستاروں سے باندھ کر کوئی فلک کے پار ہوا ہے ابھی ابھی اس کو پتا نہیں ہے خزاں کے مزاج کا وہ واقف بہار ہوا ہے ابھی ابھی عشق بشر سے عشق خدا معتبر ہوا یہ نکتہ آشکار ہوا ہے ابھی ابھی اشکوں میں تیر اٹھی ...

    مزید پڑھیے

    طوفان سے ٹکرانا اس کا تو وطیرہ ہے

    طوفان سے ٹکرانا اس کا تو وطیرہ ہے دل اشکوں کے قلزم میں چھوٹا سا جزیرہ ہے احساس نزاکت کی کیوں موت نہ واقع ہو ہر پھول کے آنگن میں کانٹوں کا ذخیرہ ہے درزوں کی لطافت میں خوشبو نے اماں پائی گل چیرنے والے نے کس شان سے چیرہ ہے منہ زور اجالے سے بہتر تھی شب تیرہ اب دل بھی پریشاں ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    دبا جو راکھ کی تہہ میں شرر نہ ختم ہوا

    دبا جو راکھ کی تہہ میں شرر نہ ختم ہوا بھڑک اٹھے گا دباؤ اگر نہ ختم ہوا لرز رہے ہیں مسافر کے رونگٹے اب تک پناہ گہہ میں بھی لٹنے کا ڈر نہ ختم ہوا ملیں جو راہ میں دیکھیں نہ آنکھ بھر کر ہم گھٹا ہے ربط مگر اس قدر نہ ختم ہوا رچا ہوا ہے تجسس کا سم فضاؤں میں عجب فسانہ تھا انجام پر نہ ختم ...

    مزید پڑھیے

    کس کی محنت کے یہ شہکار نظر آتے ہیں

    کس کی محنت کے یہ شہکار نظر آتے ہیں پیڑ جو رہ میں ثمر دار نظر آتے ہیں اور دستار کی تضحیک بھلا کیا ہوگی سر کٹے صاحب دستار نظر آتے ہیں کیا ہوا حبس زدہ ہے جو مکینوں کا مزاج گھر کے کمرے تو ہوا دار نظر آتے ہیں بھوک فاقوں سے بغل گیر ہوئی ہے ایسے شہر میں قحط کے آثار نظر آتے ہیں ان کے ...

    مزید پڑھیے

    اس صفائی سے مری بات کا پہلو کاٹے

    اس صفائی سے مری بات کا پہلو کاٹے رستہ خوشبو کے لئے جس طرح خوشبو کاٹے علم ہوگا شب ہجراں کی طوالت کا تجھے میری مانند جو اک رات کبھی تو کاٹے بعد میں آئے سبھی مجھ سے بغل گیری کو مل کے احباب نے پہلے مرے بازو کاٹے سینۂ شب پہ ضیاؤں کی دراڑیں ابھریں تیشۂ عزم سے یوں راہ کو جگنو ...

    مزید پڑھیے

    کیا غرض اس سے کسی کو کتنا ہے دلگیر کون

    کیا غرض اس سے کسی کو کتنا ہے دلگیر کون دیکھنا ہے یہ پہن کر مر گیا زنجیر کون لوگ شرماتے ہیں کیوں سر پر اسے رکھتے ہوئے لے گیا ہے چھین کر دستار کی توقیر کون پیٹ کی مجبوریاں فن کار تک بھی آ گئیں ورنہ دلبر کی بنا کر بیچتا تصویر کون میری آنکھوں کے دریچے خون میں تر ہو گئے خون میں تر ...

    مزید پڑھیے

    سیراب ہو کبھی یہ خلاف قیاس ہے

    سیراب ہو کبھی یہ خلاف قیاس ہے اپنی نظر کو پیاس تو صحرا کی پیاس ہے اس میں ہے ساری حسن و محبت سے دل کشی یہ زیست ورنہ موت ہی کا اقتباس ہے یہ دیکھنے کی شے نہیں محسوس کر اسے ہر پھول کے بدن پہ حیا کا لباس ہے ماتم کناں ہے شدت طوفاں کی موج موج کشتی مری ڈبو کے سمندر اداس ہے یوں لمحہ لمحہ ...

    مزید پڑھیے

    محبتوں کے پلے کیسے نفرتوں میں ڈھلے

    محبتوں کے پلے کیسے نفرتوں میں ڈھلے یہ سوچ سوچ کے ہم شہر تیرا چھوڑ چلے اسی خیال سے کرتا نہیں پر افشانی مرے پروں کی رگڑ سے کہیں فلک نہ جلے یہ کہہ رہی تھی حسینہ تماش بینوں سے جو آپ لوگ ہیں اچھے تو ہم برے ہی بھلے حیات و موت کہانی ہے سائبانوں کی کبھی فلک کے تلے ہم کبھی زمیں کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2