کس کی محنت کے یہ شہکار نظر آتے ہیں
کس کی محنت کے یہ شہکار نظر آتے ہیں
پیڑ جو رہ میں ثمر دار نظر آتے ہیں
اور دستار کی تضحیک بھلا کیا ہوگی
سر کٹے صاحب دستار نظر آتے ہیں
کیا ہوا حبس زدہ ہے جو مکینوں کا مزاج
گھر کے کمرے تو ہوا دار نظر آتے ہیں
بھوک فاقوں سے بغل گیر ہوئی ہے ایسے
شہر میں قحط کے آثار نظر آتے ہیں
ان کے اندر کا تو انسان ہے ریزہ ریزہ
لوگ قامت میں جو کہسار نظر آتے ہیں
اپنی ہر بات پہ اڑ جاتے ہیں بچوں کی طرح
سرپھرے صاحب کردار نظر آتے ہیں
ہر جبیں پر ہے سجی جھوٹ کی سرخی اے جانؔ
اب تو انسان بھی اخبار نظر آتے ہیں