بچہ بنا ہوا ہے بغاوت کے بعد بھی

بچہ بنا ہوا ہے بغاوت کے بعد بھی
نادم نہیں ہے کوئی شرارت کے بعد بھی


تانا برستی آگ میں کاغذ کا سائباں
جل بجھ گئے ہیں لوگ حفاظت کے بعد بھی


منزل پہ جا کے پاؤں کے چھالے ابل پڑے
ہم کو سکوں ملا نہ مسافت کے بعد بھی


سورج کی روشنی بھی نہ دل میں اتر سکی
ٹھنڈک رہی بدن میں تمازت کے بعد بھی


ہوتے ہی شام یورش خلوت نے آ لیا
مصروف ہو گیا میں فراغت کے بعد بھی


جو کچھ کہا گیا اسے مانے نہیں ہیں ہم
باغی رہا ہے ذہن حراست کے بعد بھی


اب پھر اسی کے نام پہ بیکل ہوا ہے جانؔ
دل میں وہی تڑپ ہے عداوت کے بعد بھی