طوفان سے ٹکرانا اس کا تو وطیرہ ہے

طوفان سے ٹکرانا اس کا تو وطیرہ ہے
دل اشکوں کے قلزم میں چھوٹا سا جزیرہ ہے


احساس نزاکت کی کیوں موت نہ واقع ہو
ہر پھول کے آنگن میں کانٹوں کا ذخیرہ ہے


درزوں کی لطافت میں خوشبو نے اماں پائی
گل چیرنے والے نے کس شان سے چیرہ ہے


منہ زور اجالے سے بہتر تھی شب تیرہ
اب دل بھی پریشاں ہے اور آنکھ بھی خیرہ ہے


ہر پھول کی صورت میں شاخوں پہ جما خوں ہے
یہ صحن‌ چمن کیا ہے زخموں کا ذخیرہ ہے


مہتاب سے چہروں کے بے سود نظارے ہیں
جب قلب کی دنیا میں چھائی شب تیرہ ہے


الفاظ کے تیشے سے اے جانؔ تراش اس کو
پتھر کے لبادے میں پوشیدہ جو ہیرا ہے