کیا غرض اس سے کسی کو کتنا ہے دلگیر کون
کیا غرض اس سے کسی کو کتنا ہے دلگیر کون
دیکھنا ہے یہ پہن کر مر گیا زنجیر کون
لوگ شرماتے ہیں کیوں سر پر اسے رکھتے ہوئے
لے گیا ہے چھین کر دستار کی توقیر کون
پیٹ کی مجبوریاں فن کار تک بھی آ گئیں
ورنہ دلبر کی بنا کر بیچتا تصویر کون
میری آنکھوں کے دریچے خون میں تر ہو گئے
خون میں تر خواب کی بتلائے گا تعبیر کون
اس فرشتوں کے جہاں میں صرف میں انسان ہوں
ہوتا پھر میرے علاوہ قائل تقصیر کون
ہر کسی کو دسترس ہے گردش ایام تک
موت کے اندھے سفر کی کھینچتا تصویر کون
کس کو فرصت ہے یہاں خود احتسابی کے لئے
دیکھتا ہے جانؔ اپنی آنکھ کا شہتیر کون